1 407

مقامی حکومتیں اور ان کی اہمیت

مغربی جمہوریتیں مقامی حکومتوں کی بنیاد پر ہی مستحکم ہوئی ہیں اور یہی طور ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان 2013 میں خیبر پختونخوا میں بننے والی اپنی حکومت سے پہلے اس حوالے سے نہایت پُرعزم دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے یونین کونسل کی مقامی حکومت کی بنیادی ترین اکائی کی حیثیت کو بدل کر مزید نچلی سطح پر جاتے ہوئے گاؤں کو بنیادی اکائی بنانے کے حوالے سے نیا قانون بھی پاس کرایا۔ اس قانون کے بعد سے 1001 یونین کونسلیں 3,501 ویلج کونسلوں میں تبدیل ہو گئیں۔ شہری علاقوں میں یہ نیبرہوڈ کونسلیں تھیں اور اس اقدام کا بنیادی مقصد حکومتی نظام کو گاؤں یادیہات کی سطح تک لے جانا تھا۔اس قانون کے تحت پہلے انتخابات2015 میں کرائے گئے۔ ترقیاتی فنڈز کا تیس فیصد حصہ بھی ان ویلج یا نیبرہوڈ کونسلوں کیلئے مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور چوبیس کے قریب حکومتی محکموں کو بھی اس کے ماتحت کیا گیا تھا۔ البتہ شومئی قسمت کہ یہ نظام اپنے قائم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد یکسر زمین بوس ہوگیا۔ ابھی یہ نظام پوری طرح متحرک بھی نہ ہوا تھا کہ چوبیس میں سے چھ محکموں کو واپس لے لیا گیا اور اس کے بعد وعدہ کئے گئے فنڈز کی تقسیم کو حکومتی مجاز افسران کی اجازت سے مشروط کر دیا گیا۔ اس کے بعد دس مزید محکموں کو واپس لیکر چوبیس میں سے صرف آٹھ محکموں کو مقامی حکومتوں کے ماتحت رہنے دیا گیا۔
اس کے بعد سال 2019 میں اس مقامی حکومتوں کے قانون میں مزید ترامیم کر کے ضلعی منتخب کونسل کی جگہ تحصیل کونسل کودیدی گئی مگر مقامی حکومت اور عوامی شمولیت کی راہ میں یہ رکاوٹ ڈالتے ہوئے اس تحصیل کونسل کو ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کر دیا گیاکہ یہ صوبائی حکومت کے مرکزی نمائندے ہوں گے۔ یہ تجرباتی بنیادوں پر چلائے جانے والا نظام اگست2019 سے غیرفعال ہے اور اب حکومت نے الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے دباؤ میں آکر ستمبر میں پھر سے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں صرف کے پی ہی مشکلات کا شکار نہیں بلکہ پنجاب میں بھی مئی2019 میں ایک قانون کے پاس ہونے کے بعد58000 منتخب نمائندوں کو گھر بھیج دیا گیا تھا اور اب دو سال ہونے کو آئے ہیں مگر نئے انتخابات کی کوئی خبر نہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں تو سرے سے ہی مقامی حکومتوں کا وجود ہی نہیں۔
صرف یہی حکومت نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کو وقت سے پہلے بھیج دینے کی روایت پرانی چلی آرہی ہے، صرف پنجاب میں ہی یہ کام1972 سے لیکر اب تک دس مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔ اس عدم تسلسل کے پیچھے ہمیشہ سے ہی مقامی حکومتوں اور صوبائی حکومتوں کے مابین طاقت اور اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے اختلافات ہی بنیادی وجہ رہے ہیں۔ جب ایک اُمیدوار صوبائی حکومت کی نشست جیتتا ہے تو اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے حلقے کے عوام اپنی کسی بھی ضرورت یا حق کیلئے صرف اسی کی جانب دیکھیں۔ وزیراعلیٰ بھی اپنے احکامات پر کلی طور پر عملددرآمد کرانے کیلئے ناظموں یا چیئرمین کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔
مقامی حکومت کے حوالے سے ایسے ہی مسائل کا سامنا بھارت کو بھی تھا البتہ انہوں نے مسئلہ 1992 میں ہی دو آئینی ترامیم کے ذریعے حل کر لیا تھا۔ انہوں نے ان ترامیم کے ذریعے پنچایت راج اور میونسپیلیٹی کی حرمت اور خودمختاری کو قانونی تحفظ فراہم کیا اور یہ مقامی حکومتیں آزادی کے 43 برس بعد آئین کا حصہ بن گئیں۔ انہیں آئین کے حصہ نہم اور حصہ گیارہ میں شامل کیا گیا اور یہ ترامیم اس قدر مفصل ہیں کہ حصہ نہم کو نہم اے کے باب میں مزید مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سولہ آرٹیکل اور گیارہ سکیجول شامل ہیں۔ یہ دونوں ترامیم مقامی حکومتوں کے تحفظ اور ان کو ہر صورت جاری رکھنے کے حوالے سے احکامات اور طریقہ کار وضح کرتی ہیں۔ البتہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے آئین میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے صرف دو مختصر آرٹیکلز پائے جاتے ہیں جن میں حکومتوں کی ان کے قیام اور ان تک اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے صرف ”حوصلہ افزائی” کی گئی ہے۔ ہمارے آئین میں جس طرح ان مقامی حکومتو ں کے قیام کے حوالے سے ہدایات کو درج کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اس کے قیام اور انتظام کا صوابدیدی اختیار ریاست کو دیدیا گیا ہے اور اسے آئین میں وہ اہمیت اور توجہ نہیں دی گئی جس کی وہ متقاضی ہے۔
اگر موجودہ حکومت سچ میں تبدیلی اور نیا پاکستان تشکیل دینے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے آئین میں ترمیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کے حوالے سے ایک مفصل لائحہ عمل اور انتظامی ڈھانچہ وضح کرنے کی ضرورت ہے۔ مزیدبرآں اسے ہر حال میں جاری رکھنے اور کسی مداخلت سے پاک رکھنے کیلئے بھی ہدایت نامہ ترتیب دینا ہوگا۔ اس کیلئے اگر حکومت کو حزب اختلاف کو ساتھ ملانے کیلئے کچھ رعایت بھی دینا پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ ایک مؤثر، مستقل اور جاری وساری رہنے والے مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر گڈگورننس صرف خواب ہی رہ جائے گی۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا