2 427

سینیٹ الیکشن گھٹالے اور گھبراہٹیں

سیاست میں گھٹالوں اور بدزبانیوں کا موسم ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا، ایسا لگتا ہے کہ کسی کو صورتحال کی پرواہ ہی نہیں، ڈسکہ کا ضمنی الیکشن2افراد کو نگل گیا، درجن بھر زخمی ہوئے، پولنگ والے دن ڈسکہ میں جو ہوا وہ ساری قوم نے ٹی وی چینلز پر دیکھا اور ڈسکہ والوں نے بھگتا۔ اب نون لیگ اور تحریک انصاف آمنے سامنے ہیں، البتہ ایک بات حیران کن ہے کہ اس بار حکومت کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن نے انتخابی عملے کو ساتھ ملا کر دھاندلی کی ہے، وفاقی وزیردفاع پرویز خٹک تو بہت کچھ کہہ رہے ہیں، ان کی باتوں اور دعوؤں کے درمیان ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پرویزخٹک کا گروپ ان سے ناراض ہے لیاقت خٹک کا بیانیہ پورے گروپ کا بیانیہ ہے، حکومت کہتی ہے اپوزیشن ہمارے ارکان اسمبلی خریدنا چاہتی ہے کیا واقعی ایسا ہے؟ سوال اور بھی بہت ہیں خصوصاً سینیٹ الیکشن کے حوالے سے جسے لیکر حکومتی وزرا دور کی کوڑیاں لارہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے نتائج حکومت کی توقعات کے برعکس ہوں گے، فقیر راحموں کہتے ہیں اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست کیلئے پی ڈی ایم کے مشترکہ اُمیدوار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، کچھ چھوٹے گروپس اور خود تحریک انصاف کے ناراض ارکان قومی اسمبلی نتیجہ بدل سکتے ہیں۔ گھبراہٹ حقیقی ہے یا پھر پیپلز پارٹی کا اسلام آباد کی نشست سے جوا کھیلنے کا فیصلہ درست اس کی حقیقت تین مارچ کو واضع ہوگی، فی الوقت تو یہ ہے کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کا لاہور میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں سنٹرل پنجاب اور سرائیکی وسیب کی قیادتیں بھی موجود تھیں اور سید یوسف رضا گیلانی بھی۔ اس اجلاس کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پی ڈی ایم کے اتحادیوں کیساتھ ملکر ملک میں بحالی جمہوریت کیلئے جدوجہد کررہی ہے، سینیٹ الیکشن فیصلہ کن ہوں گے، ضمنی انتخابات نے حکمران اتحاد کی مقبولیت کا پول کھول دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوریت میں پارلیمان کی بالادستی ہوتی ہے پچھلے اڑھائی سالوں سے پارلیمنٹ کو ہر قدم پر نظرانداز کیا گیا۔ بلاول بھٹو نے مارچ میں عوامی مارچ کی بات کرتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے جمہوریت کیلئے ہماری جماعت کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بلاشبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے جمہوریت کیلئے لازوال قربانیاں دیں۔
پیپلزپارٹی راتوں رات کسی آمر کے حجرے میں معرض وجود میں آئی جماعت ہے نہ محلاتی سازشوں سے سیاست کا رزق حاصل کرتی جماعت۔ پی پی پی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی رابطوں اور جدوجہد کے بعد عوام دوست پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، ایٹمی پروگرام، 1973کا دستور، میزائل پروگرام اور دیگر بہت سارے تاریخ ساز کارناموں کیساتھ پاک چین دوستی کازندہ ثبوت سی پیک کا منصوبہ ہے۔ جمہوریت، دستور اور عوام کے حق حکمرانی کیلئے پی پی پی کی جانب سے آج بھی غیرمتزلزل مؤقف کا اظہار خوش آئند ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پی پی پی نے ماضی کی طرح دشنام طرازی کے مقابلوں سے اب بھی خود کو فاصلے پر رکھا یہی ایک سنجیدہ سیاسی جماعت کا وصف ہے۔ حکومت سے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی طرح پی پی پی کی شکایات بجا مگر یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سیاسی جدوجہد اور پارلیمان کے اندر ہر دو مرحلوں پر پی پی پی اتحادیوں کیساتھ مل کر حکومت پر دبائو بڑھائے کہ وہ اپنے حقیقی فرائض پر توجہ دے۔ اسی طرح ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ ہارس ٹریڈنگ کا شور مچاتی حکمران قیادت کو اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے بعض ارکان کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر وفاداریاں تبدیل کرنے اورسینیٹ میں حکومتی اُمیدواروں کی حمایت کیلئے آمادہ کرنے کی اپنی کوششوں کو کیسے جائز سمجھتی ہے ؟یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ جمہوری جدوجہد سے معرض وجود میں آنے والی مملکت میں جمہوریت ہی حرفِ آخر ہے غیرجمہوری نظام یا پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کے شوشے ہوں یا اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے غیرحقیقت پسندانہ طرز عمل، اس سے حکمران اتحاد کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ آئے نہیں لائے گئے ہیں جبکہ جمہوری عمل پر یقین رکھنے والے لوگ موجودہ نظام سے شکایات کے باوجود اسے 2018 کے انتخابی نتائج کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ حکمران اتحاد بھی جمہوری انداز و روایات کو مقدم سمجھے۔ جمہوریت کا مطلب فردواحد کی مرضی یا کچن کابینہ کے فیصلے نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی ہے۔ اصولی طور پر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حزب اختلاف کو ساتھ لیکر چلے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اتحاد کی سیاست ہی غیر جمہوری رویوں سے عبارت ہے، یہی وجہ ہے کہ فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ان فاصلوں کو کم کرنے کیلئے پہلا قدم حکومت کو اُٹھانا چاہیے اسی طرح حزب اختلاف سے بھی یہی توقع کی جانی چاہیے کہ وہ بھی کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائے جس سے نظام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس