3 328

یہ انفرادی فیصلہ ہے

کسی قوم کے مزاج کا اندازہ لگانے کیلئے بہت تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے مظاہر بڑے سادے بڑے واضح ہوا کرتے ہیں۔ دیگ میں سے ایک دانہ چکھ لینا کافی ہوتا ہے اور قوم کی فطرت تو پلیٹ میں رکھی مٹھائی کی طرح ہوتی ہے، سب کچھ سامنے ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہر رنگ واضح نظر آتا ہے، ان مظاہر پر غور کریں تو یقین مانیے صورتحال کچھ ایسی بری نہیں کہ بڑے فخر سے یہ کہا جا سکے کہ آج ہمیں ظلمتوں کا سامنا ہے تو کیا ہم اندرسے تو سونے کے ہیں۔ ایک بار مناسب حالات تو میسر ہوں پھر دیکھیں ہم کیا کمال دکھاتے ہیں۔ سوچتے سوچتے کئی بار دل عجب سی وحشت کا شکار ہوتا ہے ۔ ہم نے ہمیشہ ہی بحیثیت قوم خود کو کمال تصور کیا ہے، اپنے اسلاف کی قربانیوں کا روپہلا رنگ سوچا کہ ہمارے چہروں پر چمک رہا ہے لیکن ایسے نہیں ہوتا۔ جب کسی قوم میں بگاڑ ایسا ہو، اس کے ہر ایک روئیے سے جھلکتا ہو’ اس کی زبان میں بے ہودگی شامل ہوجائے، اس کے رویوں میں کڑواہٹ گھل جائے’ اس کے سیاستدان بازاری زبان استعمال کرتے ہوں اور کسی کو ان پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اس کا میڈیا پرائم ٹائم پر جگت بازی کے پروگراموں کا سہارا لیتا ہو تو اس بات کی وضاحت میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی کہ انحطاط کی سیاہی قوم کے سروں سے اوپر ہو گئی ہے۔ اب ہم صرف اپنے رویوں میں ہی بگاڑ کا کینسر محسوس نہیں کرتے اب ہمارے لہجے بھی بگاڑ سے زہرخند ہیں۔ کئی بار اپنے ہی آپ سے واقفیت کیلئے بھی معاشرے کے مظاہر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ میں کون ہوں کہاں رہتی ہوں کس قوم سے تعلق رکھتی ہوں دنیا میں میرے ملک کے پاسپورٹ کی عزت کیوں نہیں اور ایک عرصے سے دنیا کی قومیں ہمیں ہندوستان کا ہی کوئی حصہ کیوں سمجھتی ہیں، کسی کو ہمارے تشخص کا علم کیوں نہیں۔ یہ باتیں ہم ایک دوسرے سے کرتے ضرور ہیں لیکن کبھی اس اُلجھی ہوئی ڈور کا کوئی سرا تلاش نہیں کرتے ۔ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم اپنے بارے میں جو سوچتے ہیں اس میں کس قدر حقیقت ہے اور کتنا فسانہ ہے۔ فسانے جو ہم نے اپنی تشفی کیلئے گھڑ رکھے ہیں۔ حقیقت سے آگہی ہوتے ہوئے بھی ہم ہمیشہ ہی اپنے آپ سے منہ پھیرے رکھتے ہیں۔ کیا کریں کہ اس کے سوا شاید کوئی چارہ بھی نہیں۔ ہم ایسے کند ذہن نہیں کہ اپنی ہیت کے اس بگاڑ کو پورے طور سمجھ نہ سکیں۔ ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی اس ہیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاست کے پنڈالوں میں چیختے چلاتے’ کف اُڑاتے ہذیان بکتے سیاستدان اور رات کو دس بجے کے بعد ٹھٹھے لگاتے پبھتیاں کستے بھانڈ میراثی۔ کیا اب ہم صرف اس حد تک رہ گئے ہیں۔ کف افسوس ملتے تو کتنے ہی لوگ ملتے ہیں جو باربار کہتے ہیں کہ ان کا تاسف ان کے دلوں کو گرفت میں لئے ہوئے ہے کہ اب اس قوم میں کوئی کمال باقی نہیں رہا۔ سڑکوں پر اشاروں پر مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، قوم سے محنت کا شعار گھٹتا جارہا ہے، تبھی تو ہم دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ ہمارے سوچنے والے دماغ اور محنت کرنے والے ہاتھ سب ہی اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ انہیں اس ملک میں کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کے گھر بار یہاں موجو ہیں۔ اگر کسی طور وہ ان کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جا سکتے تو وہ یہاں سے اپنی جڑ بھی نکال کر لے جاتے۔ ہم اس ملک سے لاتعلقی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک بہتر ہوجائے ہم کہتے بھی ہیں لیکن سچ پوچھئے تو ہم نے کبھی اس بہتری کی طرف کسی سفر کے شروعات کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے کبھی اس بہتری اور اثبات کے سفر میں اپنا حصہ نہیں ڈالا، کبھی کسی نے سگنل کو توڑتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ کیا میں اس ملک میں بہتری پیدا کرنے کیلئے یہ بھی نہیں کر سکتا کہ خود اپنے اندر چند سیکنڈ کا صبر ہی پیدا کر لوں۔ کبھی کسی نے یہ سوچ کر اپنے گھر میں جلتا بلب بند نہیں کیا کہ ہماری بچائی ہوئی بجلی کسی اور کے کام آسکتی ہے، کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ پانی ضائع ہونے سے بچانے کا فائدہ کسی اور کو بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت مختلف علاقوں میں کیا قہر بن کر برستی ہے، اپنے ہی مفاد اور لاپرواہی سے جڑے ہم لوگ کبھی اپنے سے آگے نہیں سوچتے، اسی لئے ہم ایسے ہیں، بدعنوان اور نااہل کے درمیان اپنے لئے فیصلہ کرنے کی پریشانی کا شکار ہیں۔ ہم کیا کریں’ کیسے کریں اور اس معاملے کو صرف اپنے ہی مفاد کیلئے استعمال کریں’ اگر کبھی ہم اس سے بلند تر ہو کر سوچیں تو شاید اس ملک کی حدوں کے اندر قوم پیدا ہو جائے، ہجوم نہ رہے۔ قومی تشخص بیدار ہو جائے، ہر شخص بس اپنی نہ سوچے۔ لوگ اپنے سے ذرا آگے بڑھ کر سوچیں تو ملک کو سیاستدانوں کی کشمکش کی اُلجھن میں نہ پھنسنا نہ پڑے۔ ہم اپنے پاکستانی ہونے کا احساس کریں تو کل یہ فخر میں تبدیل ہو۔ ہم مشترکہ بھلائی کا ارادہ کریں، سوچ جنم لے، ہم کس تبدیلی کے منتظر ہیں، کس تبدیلی کے خواہش مند ہیں، یہ تو ہمارا سب کا انفرادی فیصلہ ہے، اس کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت پر نہیں خود پر بھروسہ کیجئے۔ پی ڈی ایم کی باتوں میں کیا اُلجھتے ہیں، سب سے زیادہ خطرناک ہی وہ جھوٹ ہوتا ہے جس میں سچ کی آمیزش ہو۔ کب تک کسی کا انتظار کیجئے گا، اب فیصلہ کر لیجئے، یہ فیصلہ انفرادی ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں