4 313

چین آجاتا اگر کھیل کے ہارے ہوتے

کان پڑی آواز سنائی دینے کے امکانات تک نہیں رہے، ان دنوں ایک جانب سینیٹ انتخابات کے حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں کو ڈرائونے خوابوں نے گھیر رکھا ہے کیونکہ بقول تجزیہ کاروں کے ان جماعتوں کی ٹوکریوں میں جو ووٹر موجود ہیں ان کی حیثیت ”مینڈکوں” والی دکھائی دے رہی ہے، جنہیں سنبھالنا ممکنات میں سے نہیں رہا، یعنی دوچار کو قابو کیا جاتا ہے تو پانچ سات چھلانگ مارنے کو تیار، جبکہ دوسری جانب خفیہ اور اعلانیہ ووٹنگ کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا فیصلہ ممکن ہے آج جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں سامنے آئے یعنی مختصر فیصلے کا اعلان کر دیا جائے یا پھر اسے ایک آدھ دن کیلئے محفوظ کر دیا جائے، اگرچہ شنوائی کے دوران جو دلائل اور ان پر فاضل جسٹس صاحبان کے ریمارکس سامنے آتے رہے ہیں ان کی وجہ سے درست اندازہ لگانے میں مشکلات کا سامنارہا ہے، ماضی میں بھی ایسے کئی مقدمات کو اگر نظر میں رکھا جائے تو متوقع نتائج کے برعکس یعنی ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ والی صورتحال رہی۔ بہرحال یہاں پشتو کا ایک محاورہ یاد آگیا ہے کہ ”د مقدمے سر تہ گورہ” یعنی مقدمے کے اختتام تک انتظام کرو، ادھر ڈسکہ میں پولنگ پر پڑنے والے ”مبینہ ڈاکے” کی وجہ سے بھی گومگو کی کیفیت ہے۔ ایک فریق ان بیس سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں پر ری پولنگ کی بات کر رہا ہے تو دوسرا فریق پورے حلقے میں ری پولنگ کا مطالبہ کررہا ہے کیونکہ بقول اس کے دیگر پولنگ سٹیشنوں پر بھی ”ملی بھگت” سے سست رفتاری سے پولنگ کروانے کی وجہ سے ان کے ووٹر ووٹ پول کرنے سے محروم رہ گئے اور بھی کئی الزامات لگائے جارہے ہیں، بعض ”متاثرہ” پولنگ حکام نے جو بیانات دئیے ہیں ان سے بھی ڈسکہ میں پولنگ کا عمل مشکوک ہوگیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر نے جو سخت موقف اپنایا ہے اس سے کئی بڑے اہم اور کلیدی افسروں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے کی خبریں گردش میں ہیں اور ان کی جان پر بن آئی ہے۔
روز وشب یوں نہ اذیت میں گزارے ہوتے
چین آجاتا اگر کھیل کے ہارے ہوتے
خیر سیاست سے ہمیں کیا، ہم تو اپنے چہرے پر اُڑنے والی ہوائیوں سے پریشان ہیں اور جو کچھ ہمارے (عوام) کیساتھ ہورہا ہے اس کی فکر کھائے جارہی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ جن کو ہماری فکر ہونی چاہئے، انہیں اپنی کرسیوں کی فکر کھائے جارہی ہے، اس لئے انہیں اس سے کیا کہ یہ جو تواتر کیساتھ کبھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، کبھی پیٹرولیم کے ریٹ بڑھا دئیے جاتے ہیں، کبھی گیس کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں مگر بڑھانے والوں کو پھر بھی چین نہیں آتا، وہ تو اگر اقتدار میں آنے سے پہلے ”قرضوں پہ قرضے” لینے والوں پر تین حرف بھیج کر ”خودکشیوں” کے بلند دعوے کرتے رہے تھے مگر آج آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے اپنی بڑبولیوں پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دوسرے رہنماء بھی صرف اس مہنگائی کو زبانی کلامی ”حاضریاں” لگا کر اپنے بیانات میں اسے مسترد توکر رہے ہیں مگر کیا صرف بیانات داغنے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ قرض نہ لینے کے دعویدار اب ہر جانب سے قرضے حاصل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، اس ضمن میں تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان کو ایک ارب دس کروڑ ڈالر کا ادھار تیل اور ایل این جی ملنے کا معاہدہ طے پا گیا، اس ساری صورتحال پر مرزاغالب کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ
منحصر ہو موت پر جس کی اُمید
نااُمیدی اس کی دیکھا چاہئے
فاقہ مست قوموں کا بالآخر انجام غالب ہی کے بقول ”قرض کی مے” پینے والوں کا ہوتا ہے مگر اس ساری صورتحال میں بے چاری قوم کا کیا قصور، وہ تو گزشتہ 72سال سے مردہ بدست زندہ کی تفسیر بن کر زندہ ہے، ہر دور کے حکمران عوام کے نام پر بھاری قرضے لے لیکر اپنے اللوں تللوں پر خرچ کرتے رہے، لوٹ مار مچا کر ملک وقوم کو مقروض بناتے رہے اور ٹیکسوں پر ٹیکس لگا کر ان کی چمڑی ادھیڑتے رہے مگر ان کو چین پھر بھی نہیں آیا، یہ جو اب ایک ایک سیٹ کی کروڑوں وصول کئے جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں تو سوال تو بنتا ہے نا کہ اتنے مہنگے سینیٹ اور پارلیمنٹ کے دوسرے ایوانوں کے ٹکٹ خرید کر یہ قوم وملک کی ”بے لوث” خدمت کریں گے؟ یا پھر ایک کے سو پچاس بنانے کی فکر میں مبتلا ہوں گے؟۔
وناعلینا الالبلاغ

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب