p613 272

الیکشن کمیشن کاراست اقدام

لیکشن کمیشن نے این اے75ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا۔الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہے کہ حلقے میں الیکشن کیلئے سازگار ماحول نہیں تھا جس کے بعد الیکشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔18مارچ کو دوبارہ پولنگ ہوگی۔ الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن میں جو اُمیدواروں کو ماحول دیا گیا وہ منصفانہ نہیں تھا، فری اور فیئر ماحول میں الیکشن کا انعقاد نہیں ہوسکا جس کی بنا پر اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کیخلاف دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ ن کی اُمیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان20پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ، ڈسٹرکٹ پولیس افسر سیالکوٹ، اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ، ڈی ایس پی سمبڑیال اور ڈی ایس پی ڈسکہ کو معطل کر دیا جائے۔ تحریک انصاف کی جانب سے قبل ازیں الیکشن کمیشن کا جو بھی فیصلہ آئے اسے تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا مگر فیصلہ آنے کے بعدوفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی)کا این اے75ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کروانے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے75کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دینے اور پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا فیصلہ حکومت کیلئے ایک بڑا سیاسی دھچکہ تو ہے ہی لیکن یہ فیصلہ کئی حوالوں سے منفرد ہے جس کی ماضی قریب میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اپنے تحریری فیصلے میں الیکشن کمیشن نے واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ اس الیکشن کو صاف شفاف اور آزادانہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ پولنگ کے دن حلقے میں خوشگوار ماحول نہیں تھا۔ فائرنگ کے واقعات ہوئے جس میں قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔ حلقے میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور نتائج مشکوک رہے۔سیاسی مبصرین اور الیکشن کمیشن کے سابق افسران کے مطابق کسی انتخابی تنازع میں ایک حکومت کیخلاف اس طرح کے سخت فیصلے کی مثال نہیں ملتی۔ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ ایسا فیصلہ کیا ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے اور آئندہ سیاسی جماعتیں بھی ایسے کردار وعمل کے مظاہرے کو بے سود گردان کر اس سے اجتناب کریں گی کہ تنازعہ کی صورت میں بالآخر دوبارہ پولنگ ہونے سے ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے اس معاملے میںسرکاری مشینری کے ذمہ دار افسران کیخلاف جس بڑے پیمانے پر کارروائی کا حکم دیا ہے وہ صوبائی حکومت کیلئے ہی بڑا دھچکہ نہیں بلکہ صاف اور شفاف چلنے کے دعویداروں کے حوالے سے بھی قول وفعل کے تضاد کو واضح کرنے والا امر ہے۔ مثبت امر یہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسران اس سبکی کے بعد آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکائو یا پھر حکومت کے ایسے احکامات جو انتظامی کی بجائے سیاسی ہوں ان کی تعمیل و تعاون سے اجتناب برتنے میں عافیت سمجھیں گے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے انتخابی ماحول کے ساز گار نہ ہونے پر انتخابات کو کالعدم قرار دے کر خود کو غیر جانبدار اور بری الذمہ کرنے کا اقدام کیا جس سے کم از کم الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا ایسا کرنا ضروری تھا جہاں تک اس کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اقدام ہے یہ حکومت اور متعلقہ فریق کا حق ہے بہتر تو یہ تھا کہ حکومت خاموشی سے فیصلہ تسلیم کر لیتی تاکہ عدالت عظمیٰ میں ایک مرتبہ پھر ان واقعات اور حالات کو دہرایا نہ جاتا جوڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے موقع پر پیش آئے اور خاص طور پر الیکشن کمیشن نے پوری انتظامیہ کیخلاف تادیبی کارروائی اور ان کی ناکامی پر جس طرح نا پسندیدگی ظاہر کی ہے وہ سنجیدہ معاملہ ہے جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ بادی النظر میں الیکشن کمیشن سرکاری مشینری کو ہی گویا ذمہ دار سمجھتی ہے۔قطع نظر حکومتی چیلنج اور سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا آتا ہے اس فیصلے کا ثمر یہ ہے کہ جو بھی ہتھکنڈے استعمال ہوں گے اور جو بھی اس کا حصہ بنے گا،پہلے کی طرح ان سے صرف نظر کرنے یا لٹکائے رکھنے کی بجائے اب واضح فیصلہ آئے گا اور اصل صورتحال عوام کے سامنے آئے گی۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟