فایت شعاری سے متعلق اقدامات پر عملدرآمد کیلئے معاشی امور کے ماہرین کی جانب سے سرکاری افسران سے غیر ضروری الائونسز واپس لینے جیسے سخت فیصلوں پر عملدرآمد کی جو سفارش کی گئی ہے اور جو تجاویز دی ہیں ان سب پر عملدرآمد تو بہت مشکل نظر آتا ہے اگر ان سفارشات کے بعض اہم حصوں ہی کو روبہ عمل لایا جائے تو سرکاری خزانے پر کافی بوجھ کم ہوگا، مشکل سے مشکل ہوتے معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ مشکل فیصلے کئے جائیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
ملاوٹ کرنے والوں پر مزید سختی کی ضرورت
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس قیصررشیدخان نے کہا ہے کہ ملاوٹ کی شکل میں انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں،ان کاروبارکو سیل یا جرمانہ کرنے کی بجائے مستقل ختم کرنا چاہیے کیونکہ وہ انسانوں کی زندگیوں کیساتھ کھیل رہے ہیں اور ہم کسی صورت یہ برداشت نہیں کریں گے۔ اگر کوئی شخص ملاوٹ کرتا ہے تو وہ انسانی جانوں کے ضیاع کا بھی ذمہ دار ہے۔ملاوٹ کے حوالے سے معزز چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ معمولی نہیں لیکن مشکل امر یہ ہے کہ مختلف محکموں کی مشترکہ کوششوں اور حلال فوڈ اتھارٹی کی صوبائی دارالحکومت اور اضلاع کی ٹیموں کی پوری جدوجہد کے باوجود نتیجہ حوصلہ افزاء نہیں، بعض اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کے ذمہ دارافسران ان ٹیموں کی سرپرستی کیلئے موقع پر بھی موجود ہوتے ہیں جرمانہ وتنبیہ اور ملاوٹ شدہ مال اور حفظان صحت کے اصولوں کے بغیر کھانے پینے کی اشیاء کی منتقلی کیخلاف ٹھوس کارروائیاں بھی کی جاتی ہیں، موقع پر ان کا بڑے پیمانے پر ضیاع بھی ہوتا ہے، اس کے باوجود اس دھندے سے تاجر حضرات باز نہیں آتے۔ اس صورتحال کے تناظر میں اب اس امر کی تفریق ضروری ہوگئی ہے کہ قانونی تجارت کرنے والے بھائیوں اور ملاوٹ وجعلی حفظان صحت کے اصولوں کو پامال کرنے والے خدا نا ترس عناصر میں اب تفریق کی جائے، اس قسم کے عناصر سے صرف عوام متاثر نہیں ہوتے بلکہ صاف ستھری تجارت کرنے والے تاجروں کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب باقاعدہ اسسٹنٹ کمشنر کی موجودگی میں حفظان صحت کی خلاف ورزی پر اشیائے خوردنی کو تلف کرنے پر اُلٹا محکمے کے اہلکاروں کو مطعون کیا جانے لگا ہے اس طرح کی صورتحال میں مزید سخت اقدامات اور ملاوٹ وزائد المیعاد اشیاء کی فروخت اور حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے عادی افراد کا کاروبار ہی بند کیا جائے۔ایک طریقہ کار وضع ہونا چاہئے کہ بار بار کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد اور قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کا حق کاروبار عوام کے مفاد میں محدود کیا جائے اور اس کے باوجود بھی باز نہ آئے تو ان کو خوردنی اشیاء کی فروخت سے روک دیا جائے۔ سخت سے سخت اقدامات اختیار کر کے ہی عوام کی جیب وصحت دونوں کا بچائو کیا جا سکے گا۔
سی ٹی سکین مشین فوری ٹھیک کرائی جائے
برن اینڈ ٹراما سنٹر پشاور میں سی ٹی سکین مشین خراب ہونے کے ایک ماہ بعد بھی اس کی مرمت وبحالی پر توجہ نہ دینا بے حسی اور مریضوں کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔انتظامیہ ”مشین خراب ہے” کا نوٹس چسپاں کر کے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ سرکاری ہسپتالوں میں تشخیصی آلات اور مشینوں کو جان بوجھ کر خراب کرنے اور خرابی کی صورت میں جلد ٹھیک نہ کرنے کا حربہ نیا نہیں، اس طرح کے حالات میں مجبور مریض اور ان کے لواحقین ارد گرد کے لیبارٹریز اور کلینکس جانے پر مجبور ہوتے ہیں جس میں ہسپتال کی انتظامیہ اور عملے کی حصہ داری اور کمیشن خوری معمول کی بات ہے۔یہاں بھی اب یہی ہونے لگا ہے، روزانہ ایک درجن سے زائد سکین ہونے کی وجہ سے ہسپتال کو اس مشین سے لاکھوں روپے کی آمد ن مل رہی تھی لیکن اب مریضوں کو مشین کی خرابی کے باعث نجی لیبارٹریز کو بھیجا جارہا ہے۔یو ایس ایڈ کے تعاون سے نصب شدہ مشین کی خرابی ٹھیک کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے کس کی نہیں عطیہ کی مشین سے جو رقم اب تک کمائی گئی ہے اسی رقم سے اس کی مرمت وبحالی ہوسکتی ہے، مشین سے ہسپتال کو آمدنی ہوتی رہی ہے تو اسے ٹھیک کرانے پر رقم بھی خرچ ہونی چاہئے۔ مشین کی جلد سے جلد مرمت کرکے مریضوں کو دربدر ہونے سے بچایا جائے۔
آئے روز عدالتوں کا بائیکاٹ
آئے روز وکلاء کی ہڑتالوں سے عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور تاریخوں پر تاریخیں ملنے سے سائیلین بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ وکلاء حضرات کیس لینے کا بائیکاٹ نہیں کرتے مگر عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، اگر بائیکاٹ ہی کرنا ہے تو پھر کلائنٹس کو بھی دوسرا دن دیدیا جائے تو سنجیدہ بات ہوگی۔وکلاء برادری اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کریں تو بہتر ہوگا۔
Load/Hide Comments