p613 272

مشرقیات

دوعورتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں اپنی جگہ ٹھٹک کر رہ گئیں۔ایک دروازے تک پہنچی تھی کہ معلوم ہوا کہ وہیںزمین نے اس کے پائوںپکڑ لئے دوسری اپنی مسند پر بیٹھی تھی ۔ وہیں وہ بت بنی بیٹھی رہی ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا ۔ حالات بدل جاتے ہیں یہ اللہ کا قانون ہے۔ ان دونوں عورتوں میں ایک مز نہ تھی اور ایک خیزران۔ مز نہ وہی تھی جو دروازے پر پہنچتے ہی خیزرا ن کو دیکھ کر ٹھٹک گئی ۔ وہ کچھ مانگنے کیلئے محل سر ا میں آئی تھی ۔ خیزران پڑھی لکھی لونڈی تھی۔ مہدی کی شریک حیات بن کر بادشاہ بیگم بن گئی ۔ یہ خیزران کے عروج کا زمانہ تھا ۔ مزنہ نے دیکھتے ہی کہا کہ مجھے معلوم ہے آپ مجھے جانتی ہیں ۔ میں یہاں کیوں آئی ہوں یہ بھی آپ سمجھ گئی ہوں گی ؟ زمانے کی اُلٹ پھیر کا قصہ میں کیا سنائوں میری حالت نے آپ کو بتادیا ہوگا ۔ خیزران کے دل میں برسوںکی دبی ایک چنگاری سُلگ اٹھی سلگی تو بھڑ کی اور بھڑکی بھی ایسی کہ شعلہ بن کر ٹوٹتی تو حریف کو جلا کر خاکستر کر دیتی۔ اپنے آپ کو روکا بھی تو اس کی زبان سے نکل گیا کہ قطامہ ! تو وہی ہے نا جس نے محمد بن ابراہیم کی لاش کو بے گورو کفن سڑنے کے لئے چھوڑ دیا تھا ۔ تجھ سے کتنیبڑی بوڑھیوں نے جو محمد بن ابراہیم کی عزیز تھیں درخواست کی تھی کہ اپنے باپ سے کہہ کر لاش ہمیں دلوادے کہ ہم اسے زمین پر پڑے پڑے سڑنے کے بجائے زمین کے اندر دفن کردیں لیکن تو تو شہزادی تھی ۔ کبر و نخوت کے جھولوں میں جھولنے والی ! تونے ہمارے دُکھ درد کو نہ دیکھا ۔ ہماری التجائوں کو ٹھکرادیا ۔ ۔ ظالم ! تو نے یہ نہ سوچا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ آج تجھے اس حال میں دیکھ کر میرے کلیجے کی آگ ٹھنڈی پڑگئی لیکن انتقام کی چنگاری سُلگ اٹھی ۔ جی چاہتا ہے تیر ی بوٹیاں کتوں کے آگے ڈلوادوں ۔ مُزنہ مروان بن محمد کی بیٹی تھی ۔ اب اس کا گھرانہ تخت و تاج سے محروم ہوگیا تھا۔ اب حریف تخت وتاج کے مالک تھے ۔ مُزنہ نے خیزران کے غصے کا ذرا خیال نہ کیا۔ آرام سے بولی۔ نادان ! کیا تجھے یہ سزا پسند آئی جو اللہ نے مجھے دی ہے ۔ تو بھی تو حقارت سے مجھے ٹھکرارہی ہے اور اپنے غضب کی آگ سے مجھے جلا کر رکھ دینا چاہتی ہے ۔ سنبھل اور میرے انجام کو دیکھ کرعبرت حاصل کر ۔ صاحب نظراں !نشہ قوت ہے خطرناک ! مُزنہ یہ کہہ کر پلٹ گئی کہ وہاں سے نکل جائے ۔ پلٹتے پلٹتے ایک نظر اس نے خیزران کو دیکھا خیزران ایک دم پیلی پڑگئی ! اسکی ایک نگاہ تندخیزران کو لرزہ براندام کر گئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔ دوڑی مُزنہ سے لپٹ گئی ۔ (زاں ، ترساں پریشاں ، پشیماں وہ مُزنہ کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور بولی ۔۔۔خدا کے لئے نہ جائو!مجھ سے بھول ہوئی جو میں تم پر برس پڑی ۔ اب تم یہاں سے نہ جائو گی ۔ مالک مجھے بڑے بول سے بچایئے جو غلطی ہوئی سو ہوئی ۔ تم اب یہیں رہو گی ۔انسان کو بڑا بول کبھی نہیں بولنا چاہئے وقت ایک سا نہیں رہتا حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے