1 408

کیا واقعی پاکستان بدل گیا ہے؟

بالآخر ہمیں یہ ا حساس ہو ہی گیا کہ یہ 1990 کی دہائی نہیں اور غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کابل پر قبضہ نہیں کرسکیں گے۔ یہی بات کچھ مختلف الفاظ میں جب ہم جیسے طلبا کہتے تھے تو جہادی تجارت کے ماہرین فتوؤں کی چاند ماری شروع کر دیتے تھے۔ چند دن ادھر افغان ایشو پر ایک تحریر لکھی تو ہمارے قوم پرست دوست ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی نے طویل تبصرے کے بعد آخری سطر میں لکھا شاہ جی! آپ کا اور طالبان کا مؤقف ایک ہے، ایسا نہیں ہے یہ بالکل عرض نہیں کیا تھا کہ طالبان افغان اقتدار اعلی کے واحد مالک ہیں۔ اقتدار اعلی کے واحد مالک افغان عوام ہیں، حق رائے دہی بھی ان کا ہی حرف آخر ہوگا۔ اس تحریر کے پس منظر میں وہ کوششیں تھیں جو حالیہ دنوں میں بین الافغان مذاکرات کا بیانیہ تھیں کہ غیرملکی فوج کے انخلا کے بعد افغان حکومت اور مختلف الخیال گروپوں کو ملا کر نئی حکومت بنائی جائے۔ دوسرا نکتہ پاکستان کی جانبدارانہ افغان پالیسی تھی، مجھ طالب علم کی ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ طالبان کا ظہور وعروج اور ان کے دور میں افغان وحدت کو ہوئے نقصانات امریکہ سوویت جنگ اور خانہ جنگی کے ماہ وسال سے کہیں زیاہ تھے۔ بسا اوقات کچھ دوست امریکہ سوویت جنگ کے عرصہ کو جہاد بناکر پیش کرتے ہوئے خود اپنے معروف و مسلمہ اصول کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جہاد کا اعلان حکومت کرسکتی ہے اس اصول کی بنیاد پر ہی ہم 1980 کی دہائی میں عرض کرتے تھے کہ افغانوں پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخر کس اصول کے تحت بیرونی قوتیں مسلط کردہ جنگ کو جہاد کہہ رہی ہیں، نہ صرف کہہ رہی ہیں بلکہ اس جہاد کا رزق ہمارے پیاروں کو بنوا رہی ہیں۔ پاکستان ایسے ملک میں ریاست اور اس کے ساجھے داروں کے مؤقف کی مخالفت اور اپنے عصری شعور کیساتھ مختلف رائے کا اظہار خاصا مشکل کام ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں دوبار ایسا ہوا کہ ریاست نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھا۔ پہلی مرتبہ تب جب آرمی چیف نے کہا 40سالہ افغان پالیسی درست نہیں تھی یا پھر اب جب گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے1990کی دہائی نہیں، پاکستان بھی بدل چکا ہے۔ خوشگوار احساس ہوا۔ پاکستان کو بدلنا ہی چاہئے یہی ہم طویل عرصہ سے کہہ لکھ رہے تھے کہ ملک کوئی بھی ہو حق حکمرانی صرف عوام کو حاصل ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کب نکلتی ہیں، فوری طور پرکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ڈیوڈ جارج کہتے ہیں، آنے والے دنوں میں تصادم کے بڑھنے کے امکانات قیام امن کے مقابلہ میں زیادہ ہیں۔ اس تجزیہ سے صرف نظر ممکن نہیں۔ ثانیاً یہ کہ طالبان کا کلی اقتدار کیلئے مطالبہ یا ضد دونوں غلط ہیں، دائیں بازو کے جو تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے افغان امارت اسلامی کا تختہ اُلٹا تھا وہی بحال ہونی چاہئے تو کیا طالبان نے جس حکومت کا تخت اُلٹ کر ڈاکٹر نجیب کو وحشیانہ انداز میں پھانسی دی تھی وہ حکومت بحال نہیں ہونی چاہئے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ وقت آگے بڑھتا ہے ہم سبھی اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جی رہے ہیں، صرف ہم نہیں افغان اور باقی بھی۔ اصولی طور پر غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلا سے قبل داعش کا بندوبست ضروری ہے اس کیساتھ طالبان کو یہ باور کروانا ہوگا کہ کلی اقتدار ان کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام کے حق حکمرانی کی بساط لپیٹ کر دوبارہ 1990 کی دہائی میں واپس چلا جایا جائے جبکہ مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ طالبان دونوں معاہدوں پر عمل کو یقینی بنائیں۔ دوحہ امن معاہدے کو اور افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے آمادگی کے سمجھوتے کو بھی۔ افغانستان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ انقلاب ثور کیخلاف منظم کی گئی جنگ کو جہاد کا نام دیکر خود افغانوں کے ایک بڑے حصہ کو قابل گردن زدنی ٹھہرا دیا گیا، یہ رویہ کسی بھی طور درست نہیں تھا اور اب یہ مطالبہ یا ضد بھی درست نہیں کہ امریکہ فوجی انخلا کے وقت عنان اقتدار طالبان کے سپرد کرے۔ جس اہم معاملے کو پاکستان کو مدنظر رکھنا ہوگا وہ یہ ہے کہ تبدیل شدہ افغان پالیسی پر نظرثانی یا ماضی میں واپس جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے اپنے بکھیڑے بہت ہیں۔ مسائل ہی مسائل ہیں۔ داخلی اور خارجی تجربوں نے جو درگت بنائی ہے اس سے صرف نظر جرم تصور ہوگا۔ افغانستان افغان عوام کا ہے وہ جسے چاہیں حق حکمرانی دیں۔ اصولی طورپر اشرف غنی کی حکومت افغان عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ طالبان ہو یا گلبدین حکمت یار یا پھر کوئی اور بالآخر سب کو اسی سے بات کرنا ہوگی وہ آپس میں کس نکتہ پر اتفاق کرتے ہیں یہ ان کا مسئلہ ہے ہماری ترجیح پڑوس میں پائیدار امن کے قیام کی کوششوں کی کھلے دل سے حمایت کرنا ہونی چاہیے۔طالبان پروری کے جو نتائج ہم نے بھگت لئے وہ کافی ہیں۔ افغان امارت اسلامی نے خطے میں جس شدت پسندی اور عسکریت کے دروازے کھولے اس میں کچھ قصور ہمارا بھی ہے (گو کچھ لوگ سارا قصور ہمارا بھی کہتے ہیں) لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات پر قائم رہیں کہ یہ 1990 نہیں کہ کوئی ایک طبقہ طاقت کے بل بوتے پر افغان نظام کو مسمار کر دے، ہمیں عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ صرف افغانستان نہیں بدلا پاکستان بھی بدل گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''