2 428

ترقی کا زینہ

کسی ملک کی ترقی ٹیکنالوجی کے فروغ اور عملی زندگی میں اس کے نفاذ سے مشروط ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا فروغ جبر واستبداد سے آزاد ایک ایسے معتدل سماج میں ہی ممکن ہے جہاں انسانی فکر بے جا پابندیوں اور حدود وقیود سے آزاد ہو۔ سماجی جبر سے آزاد انسانی فکر نے تاریخ کے ہر دور میں ایجادات کو مہمیز دی۔ یہی ایجادات تہذیبی ارتقا کیساتھ ساتھ انسانی ضروریات کی تکمیل کا باعث بنتی رہیں جن کی بدولت انسان نے اپنی ترقی کی منازل طے کیں۔ یہ یقینا ایک افسوسناک امر ہے کہ ہمارے ہاں حصولِ آزادی کے پچھتر سال بعد بھی ملکی تعمیر وترقی کا خواب تاحال ادھورا ہے۔ ہند کے مسلمانوں نے جرأت اور پامردی کا جو مظاہرہ متحدہ ہندوستان میں کیا اور جس کے نتیجے میں ہم آزادی جیسی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہوئے، بدقسمتی سے اس کا تسلسل آزادی کے بعد برقرار نہ رہ سکا۔
ہماری گزشتہ چند دہائیوں پر مشتمل تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہمارا سماج گروہی اور طبقاتی مفادات کا مشقِ ستم بنا رہا۔ جمہوری حکومتیں شروع دن سے ہی عدم استحکام کا شکار رہیں، جس کے نتیجے میں جبر واستبداد کی قوتوں کو فروغ ملا۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جبر کا پہلا شکار انسان کی آزادیٔ فکر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان واقع ہوتا ہے۔ ایک جاگیرداری سماج میں اشرافیہ پر مشتمل اعلیٰ طبقہ ہمیشہ اپنے ذرائع دولت کے فروغ کیلئے دوسروں کی محنت پر انحصار کرتا ہے۔ آسائش زندگی کا خواہاں یہ طبقہ بالعموم اپنے گرد وپیش میں عام لوگوں کی فلاح وبہبود میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ یہی طبقہ بالعموم اپنی تن آسانی کا سامان مہیا کرنے کیلئے عام لوگوں کے استحصال کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ ادوار میں عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے تو بہت تشکیل دئیے گئے، لیکن بدقسمتی سے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کبھی کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی۔ اس معاشرتی جمود کی بڑی وجہ ہماری اشرافیہ میں منصوبوں کے حقیقی نفاذ کے رجحان کی کمی رہی ہے۔ معاشرتی تعمیر وترقی میں اشرافیہ کی عدم دلچسپی سے ہمارے ہاں نہ صرف قیادت کا بحران پیدا ہوا بلکہ معاشرتی درجہ بندی کے تحت امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم نے نچلے طبقے کو محض جینے کے چند ایک بنیادی فرائض کی ادائیگی تک ہی محدود کر دیا۔ فکرمعاش میں اُلجھا ہمارے ہاں کا عام آدمی بھلا اِس قابل کہاں تھا کہ وہ دو وقت کی روٹی سے آگے بھی کچھ سوچتا، اپنی ترجیحات کا تعین کرتا اور اس طرح اپنی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرتی تعمیر وترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا۔ اِس طرح جبر کا شکار ہمارا معاشرہ تنقیدی سوچ سے عاری اور تخلیقی صلاحیتوں سے تہی تنزل کا شکار ہو کر رہ گیا۔ ہمارے اطراف میں کئی انسانی معاشروں نے بتدریج ذراعت سے صنعت وحرفت کی طرف ارتقا کی منازل طے کیں۔ اگر ان معاشروں کی ساخت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان معاشروں میں بسنے والے افراد نے ہمیشہ جبر و استبداد سے آزاد رہتے ہوئے اپنی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا۔ ان معاشروں میں انسانی قد وکاوش کا محرک وہ بنیادی ضروریات تھیں جو بڑھتی ہوئی آبادیوں کے پیشِ نظر یہاں بسنے والے انسانوں کو لاحق ہوئیں۔ ان ضروریات نے ایجادات کی طرح ڈالی جن سے ٹیکنالوجی کے فروغ میں مدد ملی۔ ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ قدرت نے تہذیبِ انسانی کے ارتقا کے ہر دور میں موافقت برتی ہے۔ انسانی ترقی کے یہ ادوار خواہ پتھر کے دور سے متعلق ہوں یا کانسی اور لوہے کے ادوار ہوں، قدرت کے دستِ کارساز نے ہمیشہ انسان کی معاونت کیلئے اپنے خزانے انڈیلنے میں فیاضی سے کام لیا۔ انسان کی اصل فضیلت یہی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی شعوری کوشش سے قدرت کے مہیا کردہ وسائل کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالا اور اِس طرح بتدریج اپنے طبعی ماحول پر قابو پانے کی کوشش کی۔ انسانی صلاحیتوں نے قدرتی وسائل کو برویکار لاتے ہوئے ایجادات کی راہ ہموار کی۔ تاہم ایجادات کا فروغ صرف جبرواستبداد سے آزاد ایسے معاشروں ہی میں ممکن ہو سکا جہاں انسان معاشی تفکرات سے قدرے فراغت کیساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکا۔ جبر واستبداد پر مبنی ایک جاگیرداری سماج میں انسان کی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری ممکن نہیں۔
ملکِ عزیز میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں مثبت تبدیلی کا نعرہ یقینا ایک خوش آئند امر ہے، البتہ اقتدار میں آنے کے لگ بھگ تین سال بعد بھی ملکی ترقی کی کوئی واضح صورت سامنے نہ آپائی۔ ایک طرف ملک میں روزافزوں مہنگائی عام آدمی کی تکالیف میں اضافے کا باعث ہے تو دوسری جانب معاشرتی، سیاسی، معاشی اور انتظامی سطح پر ملک گیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت کو یقینا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے جو ٹھوس عملی اقدامات کا متقاضی ہے، محض نعرے بازی سے ملکی ترقی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!