4 314

یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی

خیبر پختونخوا میں اس وقت دو درجن سے زیادہ یونیورسٹیاں قائم ہیں، جہاں بہت سے شعبہ جات میں تعلیم دی جارہی ہے بلکہ اب تو ہر ضلع میں خواتین یونیورسٹیوں کے قیام کی بھی تیاریاں ہورہی ہیں جس میں کچھ اضلاع میں یونیورسٹیاں شروع بھی ہوگئیں ہیں جبکہ بہت سے اضلاع میں یونیورسٹیوں کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں اور ایک دن آئے گا کہ ہر ضلع میں جنرل یونیورسٹی کیساتھ ایک خواتین کی یونیورسٹی بھی تعمیر ہوگی۔ یونیورسٹیاں یا تعلیمی ادارے بنانا ایک خوش آئند قدم ہے، اس سے ملکی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ سعودی عرب اب ملک بھر میں یونیورسٹیوں کے جال بچھا رہا ہے جس کیلئے انہوں نے اپنے بجٹ میں کافی بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں 2000 کے بعد مشرف کے دور سے یونیورسٹیوں کی تعمیر شروع ہوئی اور پرائیویٹ سیکٹر کو بھی یونیورسٹیوں کے چارٹرڈ دئیے جس سے چاروں صوبوں میں یونیو ر سٹیا ں بنیں اور حکومت سے بہت بڑا بوجھ پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں نے اُٹھا لیا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنی سیاسی ساکھ بنانے کیلئے یونیورسٹیاں بنائیں اور اپنے بندے بھرتی کرنا شروع کر دئیے چونکہ ایک سے لیکر سولہ سکیل تک لوگ اسی ضلع سے بھرتی ہوتے ہیں اس لئے ہر ضلع میں اپنے پارٹی ورکروں کو خوش کرنے کیلئے یونیورسٹیاں بنائی گئیں اور ان میں اعلی عہدوں پر تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہی ہوئی۔ وائس چانسلر کی تعیناتی کے لمبے چوڑے پراسس میں بھی سیاسی عناصر خاص کر پارٹی کا کردار اہم رہا۔ وہ لوگ چانسلر کے عہدوں پر تعینات ہوئے جو حکومت وقت کا ساتھ دیتے تھے۔ اس وجہ سے یونیورسٹیوں میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئیں اور ذہین لوگوں کا استحصال کیا گیا۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز یونیورسٹیوں میں خوار ہوتے آرہے ہیں، بہت سی یونیورسٹیوں میں کنٹریکٹ ملازمین سے کام چلایا جارہا ہے، جن کی وجہ سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن ان یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبران کو تحقیقی گرانٹ نہیں دیتی جو کنٹریکٹ پر ہوں، کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کس طرح ایسے لوگوں کو گرانٹ دے جن کا مستقبل ہی تاریک ہو اور پراجیکٹ مکمل ہونے سے پہلے ہی پروفیسر کے کنٹریکٹ کی ری نیول ہی نہ ہو، اس طرح وہ تحقیقی گرانٹ ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اس لئے اس وقت بہت سی یونیورسٹیاں خسارے کا شکار ہیں۔ پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، خیبر میڈیکل کالج یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی سمیت بہت سی یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں، اس بحرران کی بنیادی وجہ بدانتظامی اور سیاسی لوگوں کی یونیورسٹیوں میں مداخلت ہے۔ ہر یونیورسٹی کے درجنوں کیس ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سمیت لوئرکورٹس میں موجود ہیں، جو میرٹ کے برعکس لوگ آتے ہیں یہ کیسز زیادہ تر وہ ملازمین کرتے ہیں یا وہ لوگ کرتے ہیں جن کو اپنے حق سے محروم کیا جاتا ہے اور پھر وہ عدالت کے دروازے پر ہی دستک دیتے ہیں۔ کچھ کیسز ہمارے عدالتی نظام کے باعث اور کچھ یونیورسٹی کی انتظامیہ بھی عدالت کو بروقت جواب نہیں دیتی یاپھر نئی تاریخ لے لیتے ہیں اور ایسے جوابات داخل کئے جاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ اداروں کیساتھ فرد واحد مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہر بندہ عدالتوں میں جاتا ہے، یونیورسٹیوں میں ملازمت کرنے والے جب مستقل نہیں ہوتے تو وہ عدالت سے رجوع کرکے اسے چیلنج کر لیتے ہیں اور یہ سلسلہ پھر سالوں تک چلتا رہتا ہے۔
وزٹنگ فیکلٹی پر یونیورسٹیاں چلائی جارہی ہیں اور اساتذہ کی تذلیل کی جا رہی ہے، جس سے اساتذہ یونیورسٹی میں پڑھانے سے ہی بدظن ہوگئے ہیں۔ مستقبل میں کوئی بھی اچھا ٹیچر یونیورسٹیوں میں نہیں ہوگا کیونکہ اچھے ٹیچروں کی یہاں گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی اتنا اہم نہیں ہے بلکہ ان وائس چانسلرز کو اختیار دینا سب سے اہم ہے، جس میں انہیں سیاسی لوگوں کی کالیں نہ آئیں کیونکہ جب تک بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوں گی ملک میں ہزاروں یونیورسٹیاں بھی بنائیں تب بھی ملک کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے، اس لئے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ وائس چانسلرز کی تعیناتی میرٹ پر ہو، انہیں حکومت وہ مقام دے جو ان کا حق ہے۔ انہیں کسی کام کیلئے وزراء یا سیاسی زعما کی کال نہ آئے بلکہ سیاسی لوگوں کی مداخلت بھی بند کی جائے کیونکہ ان کا کام پالیسی بنانا ہے نہ کہ یونیورسٹیوں کے دورے کرنا، جس سے طلبہ کو کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ اگر کوئی اپنے فیلڈ میں اعلی مقام رکھنے والی شخصیت کو یونیورسٹی بلایا جائے تو وہ بڑی بات ہے، نہ کہ بڑی سیاسی شخصیات کو قصیدے پڑھانے کیلئے طلبہ کے سامنے لایا جائے۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر