5 323

ضم شدہ اضلاع، انضمام کے بعد

خیبر پختونخوا کیساتھ سابق فاٹا کے انضمام کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے کئی دہائیوں پر محیط علاقے کے عوام کی وہ ساری مایوسیاں اور محرومیاں ایک د م ختم ہوجائیں گی اور یہاں پر ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوجائے گا لیکن انضمام کے ڈھائی سال مکمل ہونے کے بعد یوں لگ رہا ہے جیسے عوام کے اندر وہی مایوسیاں ایک بار پھر جنم لے رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید علاقے کے اندر ترقی کی مطلوبہ رفتار کا کم ہونا ہے لیکن میری دانست میں اس کی سب سے اہم وجہ عوام کی بڑھتی توقعات اور ہمارے وسائل کے درمیان توازن کا عدم فقدان ہے۔2018 کے عام انتخابات میں حکومت نے انتخابی مہم کے دوران سیاسی نعروں سے عوامی توقعات کو اس حد تک بڑھایا جیسے اس جنگ زدہ علاقے میں راتوں رات تبدیلی آجائے گی اور اس تبدیلی کے اثرات اور نتائج کچھ ہی دنوں کے اندر محسوس بھی کئے جاسکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نہ ہی ایسا ممکن تھا۔ گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار یہ علاقہ پوری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ دہشتگردی کیخلاف اس عالمی جنگ میں تقریبا ستر ہزار لوگوں نے قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کئے، لاکھوں لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑکر اپنے ہی ملک کے اندر مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑا، ہزاروں بچے یتیم ہوگئے، عورتوں کے سہاگ اُجڑ گئے، سماجی، معاشی اور سیاسی ادارے تباہ ہوگئے۔ کھیت اور کلیان اُجڑ گئے۔ ایک اندازے کے مطابق دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اُٹھنے والے اخراجات 150ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے ایک پورے علاقے کی آبادکاری اور اس میں سیاسی، سماجی اور معاشی اداروں کے قیام کیلئے جہاں ایک عرصہ درکار ہے وہاں اس کیلئے ایک خطیر رقم کی بھی اشد ضرورت ہے۔ فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کے مطابق این ایف سی میں ضم شدہ علاقوں کیلئے قابل تقسیم محاصل میں سے تین فیصد حصہ مختص کیا گیا تھا اور یہ سفارش کی گئی تھی کہ دس سال تک ہر سال سوارب روپے کے حساب سے علاقے کی سماجی اور معاشی ترقی پر خرچ کئے جائیں گے تاکہ دہشتگردی کا شکار یہ علاقہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے اور یہاں کے عوام ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک یہ پیسے نہیں مل سکے ہیں۔ وفاق سندھ حکومت پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ اپنا حصہ نہیں ڈال رہی۔ دوسری طرف سندھ حکومت وفاق کو موردالزام ٹھہرا رہی ہے کہ وہ علاقے کی ترقی میں سنجیدہ نہیں ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان الزام تراشی سے اس جنگ زدہ علاقوں میں ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا بلکہ اس کا فائدہ ان انضمام مخالف قوتوں کو پہنچے گا جو روزاول سے ہی اس سیاسی تبدیلی کیخلاف آواز اُٹھاتے رہے ہیں۔ یہ انضمام مخالف قوتیں عوام کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسیوں اور محرومیوں کے اس احساس کو مذید جلا بخش سکتے ہیں جس سے انضمام کے اس پورے عمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ محمود خان ضم شدہ اضلاع میں اپنے دوروں کے دوران گاہے بگاہے اس علاقے کی ترقی کو اپنی ترجیحات کا لازمی جز گردانتے رہے ہیں، بلاشبہ ضم اضلاع میں صوبائی انتخابات کا انعقاد، صحت سہولت کارڈ، امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کا نظام اور عدالتی نظام کا قیام علاقے کی ترقی میں حکومت کی سنجیدگی کا پتہ دیتی ہے لیکن دہشتگردی کا شکار یہ علاقہ مزید توجہ کا متقاضی ہے۔ حکومت کو اپوزیشن جماعتوں سے مل بیٹھ کر این ایف سی کی مد میں ضم اضلاع کو اس کا تین فیصد حصہ یقینی بنانے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ 18فروری کو اسلام آباد میں وزیرخزانہ حفیظ شیخ کی زیرصدارت این ایف سی کا اجلاس ہوا جس میں سات مختلف گروپس بنائے گئے تاکہ وفاق اور صوبوں اور خود صوبوں کے درمیان قابل تقسیم محاصل کے حوالے سے دولت کی تقسیم کیلئے کسی فارمولے پر اتفاق رائے پیدا کی جا سکے۔ اس میں ایک گروپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے سفارشات مرتب کریں۔ یہ یقینا ایک قابل تحسین قدم ہے لیکن اس حوالے سے مذید سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں تاکہ یہ مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہو اور ضم اضلاع میں ترقی کا سفر جلد سے جلد شروع ہو۔ حالیہ دنوں میں ضم اضلاع اور خصوصا شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کیساتھ ساتھ علاقے میں زمینی تنازعات پر بڑھتے ہوئے تصادم کی وجہ سے عوام کے اندر تشویش پائی جاتی ہے۔ امن وامان کی بگڑتی صورتحال کیساتھ ساتھ علاقے کی سیاسی اور معاشی صورتحال اس بات کا متقاضی ہے کہ اس علاقے کے عوام کو سنجیدگی سے سنا جائے اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ ان لوگوں کے دلوں کے اندر ریاست کیخلاف نفرت کے جذبات کو اُبھارنے نہ دیا جائے بلکہ ان کے اندر اس نئے نظام کو اپنانے کا احساس پیدا کیا جائے تاکہ علاقے کے اندر یہ نیا نظام کامیابی کیساتھ آگے چل سکے۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر