p613 273

مشرقیات

دجلہ کے کنارے جاتے جاتے نظر اُٹھی تو دیکھا کہ ایک عورت لیٹی تھی اور ایک مرد اس کے پاس بیٹھا تھا ۔ مرد کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی ۔ کبھی وہ بوتل سے خود پیتا اور کبھی عورت کو پلاتا ۔ دُور سے تو بس یہی کچھ نظر آتا تھا ۔ دجلہ سے اس وقت گزرنے والے اللہ کے نیک بندے تھے ۔ حضرت حسن بصری ! وہ اُم المومنین حضرت اُم سلمہ کی گود کے کھلائے تھے ، ان کی ماں حضرت اُم سلمہ کی خادمہ تھیں ۔ وہ کام میں ہوتیں تو حضرت ا م سلمہ اپنی خادمہ کے بچے حسن کو گود میں اٹھالیتیں ۔ حضرت بصری حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ہی حضرت اُم سلمہ کی خادمہ کے بیٹے کا نام رکھا ۔ بہت سے جلیل القدر صحابہ کو دیکھا ۔ اتفاق کی بات کہ عین اس وقت جب حضرت بصری بوتل والے مرد کے پاس سے گزر رہے تھے چیخ پکار کی آوازیںا نہیں سنائی دیں۔ جانے کیا ہوا کہ ایک کشتی جو دریا میں رواں تھی اُلٹ گئی ۔ دریا زوروں پر تھا ۔ موجوں کی اُچھاڑ پٹک میں کشتی کے مسافروں کے ڈوبنے اُبھرنے سے قیامت کا سماں پیدا ہوگیا۔
حضرت حسن بصری نے دیکھا کہ حبشی مرد اپنی جگہ سے اُٹھا ہوا کے جھونکے کی طرح نکلا ۔ غڑاپ سے دریا میں کود پڑا ۔ نہ دریا کی طغیانی کی اُس نے پروا کی نہ اپنی جان کا خیال کیا ۔ ایک کے بعد ایک نو آدمیوں کی جان بچا کر وہ دریا سے نکال لایا کشی میں کل 10مسافر تھے ۔ صرف ایک مسافر ابھی دریا میں ہاتھ پائوں مار رہا تھا ، حبشی اسے دریا میں سے نکالنے کے بجائے سیدھا حضرت حسن بصری کے پاس آیا ۔ بولا حضرت! ان نوکو تو میں اللہ کے فضل سے بچا لایا ہوں ۔ اب ذرا ایک کو آپ ڈوبنے سے بچایئے ۔
حضرت خاموش رہے ، وہ جانتا تھا کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں۔ خیر خود ہی دوڑا اسے بھی بچا لایا ۔ جب مسافر حواسوں میں آئے تو حبشی چپکے سے حضرت کے پاس آیا ۔ بولا وہ جس عورت کو آپ نے میرے ساتھ دیکھ کرمنہ پھیر لیا تھا وہ میری ماں ہے ۔ بہت سخت بیمار ہے میں اسے اٹھائے لئے جارہا تھا کہ اس کی حالت بگڑ گئی تو میں نے اسے یہاں لٹا دیا ، وہ جوبوتل آپ نے میرے ہاتھ میں دیکھی تھی اس میں دجلہ کا پانی ہے جو میں اپنی ماں کو پلارہا تھا ۔ پیاس سے میرا بھی براحال تھا اس لئے میں خود بھی اس سے ایک ایک گھونٹ پی رہا تھا ۔ حضرت حسن بصری پہلے ہی اس کی نیکی دیکھ کر تحسین وآفریں کر رہے تھے ۔ اب یہ تفصیل سنی تو انہیں بہت افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ انہوں نے بد گمانی کی ۔ آپ نے اس حبشی سے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر توبہ کی ۔
حضرت حصن بصری تو خیر بہت بڑے تابعی اور بہت بڑے بزرگ تھے ۔ یہ واقعہ اصل میں ہم لوگوں کے لئے ایک سبق ہے کہ ہم کسی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور کسی کے بارے میں بد گمانی نہ کریں ۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان