1 409

تجدید سیزفائر یا تجدید تعلقات؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا منجمد گلیشیر بظاہر تو اچانک پگھلنا شروع ہو گیا ہے مگر اس کے آثار بہت پہلے سے دکھائی دے رہے تھے۔ اول تو دو ہمسائے اور دوایٹمی طاقتیں مکمل قطع تعلقی کیساتھ تادیر نہیں رہ سکتے اور موجودہ دور میں جب ہر ملک اور معیشت کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے پر انحصار کرتی ہے دو قریبی ہمسائے غیرمعینہ مدت تک حالت جنگ میں نہیں رہ سکتے۔ دوئم یہ کہ کئی دوسری طاقتیں بھی اس کیفیت سے زیادہ دیر تک لاتعلق نہیں رہ سکتی تھیں۔ اس لئے کم یا زیادہ تعلقات کی منجمد برف کو کسی نہ کسی مرحلے پر کچھ مدت تک ہی سہی پگھلنا ضرور تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس بار تعلقات کی برف کے پگھلاؤ میں امریکہ سے زیادہ چین کا حصہ نظر آتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دوران امریکہ کی طرف سے دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کی پس پردہ یا کھلی کوئی بھی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دی۔ ٹرمپ نے ثالثی کی نرم سی خواہش کا کئی مواقع پر اظہار کیا اور بظاہر یوں لگتا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کو ہوا دینے کی حکمت عملی اپنائے ہے، اگر ایسا نہیں تو بھی امریکہ کو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے میں زیادہ جلدی اور دلچسپی نہیں۔ پانچ اگست کے اقدام میں امریکی انتظامیہ کے کسی حصے کی تائید کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خود ٹرمپ نے بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کیا تھا کہ نریندر مودی نے یہ قدم اُٹھانے سے پہلے ان سے بات کی تھی۔ ٹرمپ کی رخصتی کے بعد ابھی جوبائیڈن انتظامیہ پوری طرح سنبھل نہیں پائی۔ پاکستان اور بائیڈن انتظامیہ میں ابھی بہت سرسری رابطے ہوئے ہیں۔ ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور اعتماد کی نوعیت کیا ہوگی؟ ابھی امریکی صدر نے صرف بھارتی وزیراعظم سے براہ راست بات کی ہے اور پاکستان کی قیادت سے اعلیٰ سطح پر رابطہ بھی نہیں ہوا۔ اس ابتدائی مرحلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخ کی شدید ترین کشیدگی میں کمی کے آثار میں امریکہ کی ماضی اور موجودہ قیادت سے زیادہ کسی اور فیکٹر کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے اور لامحالہ یہ چینی فیکٹر ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ ایم ایم نروانے نے کچھ دن قبل کہا کہ پاکستان کے محاذ پر کچھ غیرمعمولی ہو سکتا ہے۔ سیزفائر معاہدے کی تجدید ”غیر معمولی” بات ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطہ تھا یا نہیں اہم بات یہ ہے کہ تعلقات میں معمولی ہی اور علامتی ہی سہی نارملائزیشن کیلئے دباؤ موجود تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے کنٹرول لائن پر ماضی کی جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا۔ 742کلومیٹر اور 460میل طویل جموں وکشمیر کی کنٹرول لائن پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ2003 سے موجود ہے۔ لیکن 2014 سے اس معاہدے کی خلاف ورزیوں میں تیزی آتی چلی گئی۔
پانچ اگست2019کو دونوں ملکوں کے تعلقات یکسر منقطع ہو کر رہ گئے تھے اور اس کیساتھ ایک نئی فالٹ لائن متحرک ہو گئی تھی اور چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر معاملات سنگین ہونا شروع ہو گئے تھے جو گزشتہ برس مئی کے واقعات پر منتج ہوئے تھے جب دونوں ملکوں کی افواج کے مابین شدید تصادم میں بھارت کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اس تنازعے کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کے نو ادوار بے نتیجہ رہے تھے مگر دسویں دور میں اچانک ایک معاہدے تک پہنچنے کی نوید سنائی گئی تھی۔اس طرح چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو ایک پرامن حل کا رخ دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چین نے بھارت کی گردن بری طرح دبوچ رکھی تھی اور اس کا اصل محرک کشمیر پر بھارت کے یکطرفہ فیصلے سے پیدا ہونے والے خطرات اور چیلنجز تھے۔ چین اور بھارت کے درمیان معاہدے کے حصے کے طور پر پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی برف کا پگھلنا بھی شامل تھا ۔چین اور بھارت کے درمیان دس سرحدی مقامات پر تنازعہ چل رہا ہے ۔ان میں کئی جگہوں پر چینی فوج نے پیش قدمی کی ہے مگر معاہدہ صرف دومقامات پرہوا ۔اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ معاہدہ ہونے سے اب چین اور بھارت کے درمیان اب بھی ہمیشہ کیلئے ”سب اچھا” نہیں۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان تجدید سیزفائر معاہدے کا مطلب تجدید تعلقات نہیں کیونکہ حقیقی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ کشمیر پر مذاکرات اور کچھ زمینی تبدیلیاں ہوئے بغیر تجدید تعلقات کا امکان نہیں۔سیزفائر معاہدے کی تجدید کا خیرمقدم کرنے میں امریکہ نے بھی دیر نہیں لگائی اور وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری نے اسے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی جانب ایک مثبت قدم قراردیا۔ پاکستان،بھارت، حریت کانفرنس، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ جو اس بات کا اشار ہ ہے کہ چین کا دباؤ اور امریکہ کا سمجھائو دونوں ملکر بھارت کو پاکستان کیساتھ مذاکرات کی میز تک گھسیٹ لائے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میز پر پھیلے کاغذ پر کشمیر کس مقام پر رہتا ہے اسی پر اعتماد سازی کے آنے والے دور کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟