2 429

ایل او سی سے آگے

پاکستان بھارت کے نہایت بگڑتے ہوئے تعلقات میں یکدم26فروری کو ایک اُمید کی کرن دکھائی دی۔ جس ایل او سی پر گزشتہ کچھ برسوں میں آگ گولہ بارود برستے رہے اور لوگوں کی جانیں لیتے رہے، اب وہاں جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے۔ راولپنڈی اور دہلی سے کہا گیا ہے کہ دونوں افواج2003کی جنگ بندی کے معاہدے کے اب پابند رہیں گی۔ یہ بہت اہم تبدیلی ہے مودی حکومت کے پچھلے پانچ سال کی پالیسی میں۔ بالاکوٹ پر حملہ، کشمیر کا بٹوارہ اور بھارت سے الحاق، کشمیری شہریوں پر قید وبند کے مظالم اور پابندیاں۔ 5 اگست، 2019 کو مودی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک سخت وار کیا، مودی سرکار نے پوری پوری کوشش کی کہ کشمیریوں کو فتح کرنے کیلئے اسی طرز پر آگے بڑھے جس طریقے سے اسرائیل نے ناکام کوشش کی فلسطینیوں کو فتح کرنے کی۔اس معاہدے کے حوالے سے پاکستان میں جو کہا جا رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان بھارت کے ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشن چند ماہ سے بات کر رہے تھے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ ایل او سی پر فائرنگ سے انسانی نقصانات ہوتے ہیں ان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے اس سیز فائر پر پہلے دونوں ممالک کی فوجی قیادت نے بات کی پھر اپنی سیاسی قیادت سے بات چیت کی اور بلاخر اس پر سیاسی قیادت نے بھی رضا مندی ظاہر کی۔26فروری کے سیز فائر سے آگے توقع تو یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت باقاعدہ طور پر شروع ہو جائے گی اور دونوں ممالک کے ہائی کمشنر جو کچھ برس پہلے جو 2019 میں نکال دیئے گئے تھے واپس بھیج دیئے جائیں گے۔لیکن یہ بات آگے کہاں تک بڑھتی ہے، معاملات پر بات چیت کس سطح پرہوتی ہے اس کا تعلق اس سے ہے کہ یہ اس نہج پر اس سیز فائر پر بات پہنچی کیسے یا کیوں اور اس کے محرکات کیا ہیں۔ اسلام آباد کا جہاں تک تعلق ہے، عمران خان جب سے حکومت میں آئے ہیں تواتر کیساتھ پاکستان بھارت اور خطے کے بہتر تعلقات کی بات کرتے رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے۔سری لنکا کے حالیہ دورے میں وزیر اعظم نے کھل کر کہا کہ ان کا جو ویژن ہے وہ یہ ہے کہ ہر مسئلہ بات چیت کیساتھ حل ہو یعنی کہ ہمسایہ ممالک کیساتھ تجارتی تعلقات اچھے ہوں تاکہ غربت ختم ہو اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت ان کو ملنا چاہیے۔ ان کی یہ ایک مربوط سوچ ہے خطے میں امن کے حوالے سے جو نوازشریف کی بھی تھی لیکن وزیر اعظم اور فوجی کمانڈ معاملات کو مل کر چلا رہے اور آگے لے کر جا رہے ہیں۔
اگر بھارت بات چیت صاف نیت سے کرے گا اور سوچ سمجھ کر کرے گا تو بات چیت کافی آگے بڑھ سکتی ہے۔ سوال تو یہ کہ بھارت کی کیا وجہ رہی ہے۔
بھارت کے اپنے مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال سے چین کیساتھ جو بھارت کی کشیدگی پیدا ہوئی اور ایک قریب جنگ کی سی صورتحال رہی اس کا بھارت پر بہت دباؤ رہا ہے۔ سوچ بیچار رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ بھارت کی ایک غلط پالیسی رہی ہے۔ حال ہی میں چین کیساتھ بھی بھارت کی بات چیت شروع ہوئی ہے۔امریکہ میں بھی نئی قیادت ہے جو انسانی حقوق، اقتصادیات، افغانستان میں قیام امن کی کوششیں ہیں اور پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات بڑھائے گی۔ تو بھارت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کی نہیں نفرت کی اور دہشت گردی کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس کا نقصان ہی ہے بھارت کو کوئی فائدہ نہیں۔ شاید مودی حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ کشیدگی ختم کر کے بات چیت شروع کی جائے۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ سیز فائر بات چیت کے بغیرنہیں ہوا ہو گا کیونکہ یہ جنگ بندی یقینا تفصیلی ایکشن پلان کا حصہ دکھائی دیتی ہے۔ دونوں ممالک نے یہ پہلا قدم اُٹھایا ہے تعلقات کو معمول کی جانب لانے کیلئے۔
2003کے آخر میں جب بھارت اور پاکستان کی کشیدگی کا ایک باب اختتام پذیر ہو رہا تھا اس وقت قومی سلامتی کے مشیر بریجیش مشرا کی ڈی جی آئی ایس آئی سے اس وقت بھی ملاقات اور تفصیلی بات چیت ہوئی تھی۔ اس کے نتیجے میں پھر بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان سارک سمٹ کیلئے آئے تھے۔
جنوری2004میں اور اس کے بعد پاکستان بھارت کے تعلقات کی جو آگرہ سربراہ اجلاس کی وجہ سے برف پگلی تھی۔ تو اب بھی کچھ یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا مودی اٹل بہاری واجپائی کی طرح آگے بڑھ سکیں گے؟ مسئلہ کشمیر نہ پاکستان کسی صورت چھوڑ سکتا ہے اور نہ بھارت اس معاملے پر پردہ ڈال سکتا ہے تو جیسے بات چیت اب شروع ہو گی تو کشمیر پر بات لازم ہے۔مودی کو اگر بھارت کی اور خطے کی بہتری کیلئے کام کرنا ہے تو ان کو اب بھارتیہ جنتا پارٹی کا رہنما اٹل بہاری واجپائی بننا ہو گا،کیا وہ بن سکیں گے؟۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات