3 330

چال چلتا ہے کوئی اور میاں

آج مارچ کی پہلی تاریخ ہے، سینیٹ کے انتخابات میں مزید صرف دو دن رہ گئے ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے جلد ہی معلوم ہو جائے گا۔ پنجاب میں تو بلامقابلہ انتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی پنجاب فارمولے پر عمل کی کوششیں تادم تحریر صرف خواہشوں تک محدود ہیں، تاہم وہ جو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب تھا وہ ممکنہ طور پر چکناچور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا اندازہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بزدار کے تازہ بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف سینیٹ کی اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئے گی، اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ وہ جو بعض ”حلقوں” نے یہ سوچ رکھا تھا کہ سینیٹ میں بھی دوتہائی اکثریت سے آئین میں نئی ترمیم کر کے 18ویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے اور ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنے کیساتھ ساتھ صوبوں کو دئیے جانے والے مالیاتی اختیارات اور حصے کو واپس مرکز کے ہاتھ میں مرتکز کر دیا جائے تو اب یہ صورتحال بظاہر خطرے سے دوچار دکھائی دیتی ہے کیونکہ آئین میں ترمیم کیلئے دونوں ایوانوں سے دوتہائی اکثریت درکار ہے جو بدلتے ہوئے حالات میں دکھائی نہیں دیتی۔ ویسے سیاست بھی شطرنج کی بساط کی مانند ہے، جہاں پیادے سے لیکر شاہ تک آگے پیچھے دائیں بائیں ہونے کیلئے شاطر کے مرہون منت ہوتے ہیں اب یہ تو شاطر کا کمال ہے کہ وہ کتنی مہارت سے چال چلتا ہے بقول یار طرحدار ڈاکٹر نذیر تبسم
ہم تو شطرنج کے مہرے ہیں نذیر
چال چلتا ہے کوئی اور میاں!
ہماری سیاسی بساط پر ان دنوں جو ”سیاسی جنگ” جاری ہے، اس میں نفرتوں، بغض وعناد اور خود غرضیوں کے آمیزے کا بڑا عمل دخل ہے حالانکہ شطرنج سوچ بچار، سکون اور داؤ پیچ کی نزاکتوں سے عبارت ہے، بد قسمتی سے گزشتہ چند سالوں کے دوران نفرت وحقارت کے جو بیج سیاسی فضا میں بوئے گئے ہیں، ہر طرف گالم گلوچ بریگیڈ دندناتے پھرتے ہیں، اس صورتحال کا نتیجہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتتی رہیں گی، اناپرستی میں لتھٹری ہوئی قیادت نے جو زہر نئی نسل کے ذہنوں میں انجیکٹ کر دیا ہے اس کا جادو اب نہ جانے کب تک فکری تصادم کا باعث بنتا رہے گا۔ معاشرہ فکری تقسیم کے زہرناک خنجر کے سائے میں فنا وبقا کے درمیان معلق ہو چکا ہے۔ ہماری سیاست انہی فکری تضادات کی بندگلی میں پہنچ چکی ہے، کہیں روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ہم ایک بار پھر اس صورتحال سے دوچار ہیں جن کا ہمیں 1971ء میں سامنا رہا ہے، اس لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ اس پاک وطن پر رحم فرمائے اور ہمیں محفوظ رکھے، اپنے ساتھ ہونے والے حادثوں سے ہم نے من حیث القوم کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب بھی گروہی مفادات کی اسیری ہمارا وتیرہ ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہم ساری توانائیاں صرف بلکہ ضائع کر رہے ہیں، سیاسی مخاصمت میں اپنے مخالفین کو راہ دینے پر ہم تیار نہیں ہیں، اس کا فائدہ ہمارے دشمن اُٹھا رہے ہیں، وہ سازشیں کر کے ہمیں چاروں جانب سے گھیر لینا چاہتے ہیں، عالمی سطح پر ریشہ دوانیوں سے ہمارے وجود کیلئے خطرات پیدا کئے جارہے ہیں مگر ان سب سے ”بے فکر” ہوکر ہم آپس ہی میں اُلجھے ہوئے خود ہی اپنے دشمنوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں، سوشل میڈیا پر جو طوفان ہم نے خود ہی برپا کر رکھا ہے اس سے ہمارے فکری انتشار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ہماری سوچ کی حدود کا دائرہ انتہائی مختصر صرف ذاتی یا گروہی مفادات تک ہی ہے، اس سے آگے ہماری نگاہ پہنچ ہی نہیں سکتی۔ قومی مفاد کی ہمارے سامنے کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہی، حبیب جالب مرحوم نے ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ
تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند