4 315

گرے لسٹ کے سائے باقی ہیں

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حالیہ ورچوئل اجلاس میں جو22 سے25فروری تک پیرس میں ہوا، پاکستان کو آئندہ چار ماہ کیلئے گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے کیلئے جو27نکاتی پروگرام دیا گیا تھا اس میں سے ابھی3نکات پر اجلاس کے خیال میں کام پورا نہیں ہوا۔ اس لئے جون 2021 تک کا وقت دیا گیا ہے۔ جن تین نکات پر پاکستان کو کام پورا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ان میں سے نمبر ایک یہ ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ وہ دہشتگردی کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کرکے نہ صرف اس کی تحقیقات کررہے ہیں بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان کیلئے کام کرنے والے افراد کیخلاف قانونی کارروائی کررہے ہیں۔ دوسرے نمبر کا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ دہشتگردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کیخلاف جو قانونی کارروائی کی جائے اس کے نتیجے میں انہیں سزائیں ہوں اور جرائم کا مکمل خاتمہ ہو۔ تیسرے یہ کہ اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشتگردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کیخلاف مالی پابندیاں لگائی جائیں ناکہ انہیں فنڈ اکٹھا کرنے سے روکا جاسکے۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت (Terror Financing) کے شواہد ملنے پر ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں گرے لسٹ کے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا تھا اور 27نکات پر مشتمل ایک پروگرام پاکستان کے حوالے کر دیا تھا۔ پاکستان کے دشمن ممالک خصوصا بھارت نے اس پر شادیانے بجائے تھے اور اس کے بعد مسلسل کوشش کی کہ بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ پچھلے سال یعنی فروری2020 تک پاکستان نے13 نکات پورے کر دئیے تھے اور اس طرح بلیک لسٹ میں جانے کا امکان ختم ہوگیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو موقع دیا گیا کہ وہ باقی نکات جلد ازجلد پورا کرے اس طرح اکتوبر2020 تک27 میں سے 21 نکات پر عملدرآمد ہوچکا تھا اور حالیہ میٹنگ سے پہلے بقیہ 6نکات کے بارے میں پاکستان پہلے ہی رپورٹ جمع کرا چکا تھا اور حکومت اُمید ظاہر کر رہی تھی کہ اس اجلاس میں اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا لیکن تین نکات کے باعث پاکستان کو چار ماہ کا عرصہ اور دیا گیا ہے جبکہ ایف اے ٹی ایف کے چیئرمین مارکوس نے یہ واضح کیا کہ بلیک لسٹ میں ڈالنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
گرے لسٹ میں کسی بھی ملک کے نام کے شامل ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کو معاشی طور پر اتنا کمزور اور بے بس کر دیا جائے کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے بھی قابل نہ رہے۔ ایف اے ٹی ایف کو ویسٹرن انٹرسٹ کیلئے بنایا گیا تھا اور یہ ہتھیار ان ملکوں کیلئے بھی استعمال ہوا جو مغربی ملکوں کی گڈ لسٹ میں نہیں تھے۔ جنہیں معاشی طور پر کمزور کر کے وہ ان ملکوں سے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل چاہتے تھے۔ پاکستان کا نام بھی2015 تک گرے لسٹ میں رہا ۔ اسی سال پاکستان نے مقدور بھر کوشش کے بعد اپنا نام گرے لسٹ سے نکلوایالیکن بعد ازاں بھارت نے مغربی ملکوں میں اپنی مضبوط لابی کے ذریعے پاکستان کا نام ایک بار پھر گرے لسٹ میں شامل کرا دیا، جو ابھی تک اس لسٹ میں شامل ہے۔
ایف اے ٹی ایف (FATF) نام کا یہ بین الحکومتی ادارہ دنیا کے سات ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک، امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، جرمنی، فرانس اور کینیڈا کی تجویز پر 1989میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا سے سرد جنگ ایک انتہائی گرم جنگ کے بعد ختم ہوچکی تھی۔ روس جیسا سپر پاور ملک چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم ہورہا تھا اور دنیا میں امریکا بہادر کے نام سے ایک ہی سپر پاور تھی۔ اپنے قیام کے وقت اس ادارے کا مقصد یہ تھا کہ منی لانڈرنگ کو ختم کیا جاسکے۔ لیکن جب2001 میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس ادارے نے اپنے مقاصد میں دہشتگردی کی مالی معاونت کو بھی شامل کر لیا۔ یہ ادارہ جس کا ہیڈ کوارٹر فرانس کے شہر پیرس میں ہے۔ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت جیسے جرائم کی نگرانی کرتا ہے اور جہاں ان کے شواہد یا ثبوت ملیں انہیں لمبی شرائط کا مطالبہ تھما دیتا ہے اگر وہ ممالک ایف اے ٹی ایف سے تعاون کریں اور اپنے ملک سے ان چیزوں کے خاتمے کیلئے تیار ہوں تو انہیں گرے لسٹ میں شامل کر دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی مکمل نگرانی میں رہیں گے اور اگرکوئی ملک اس معاملے میں عدم تعاون کرے اور شرائط کو پورا کرنے سے انکار کردے تو وہ بلیک لسٹ قرار دیدیا جاتا ہے ایسا ملک سخت مالی اور معاشی دباؤ میں جاتا ہے اور اس کا دنیا سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے۔
منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت گھناؤنے جرائم ہیں۔ منی لانڈرنگ اگر آسان ہو تو ملک میں کرپشن بڑھ جاتی ہے کیونکہ کرپشن کرنے والوں کا یقین ہوتا ہے ان کا غیر قانونی پیسہ بڑی آسانی سے قانونی بنایا جاسکتا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اگر ملک میں اسمگلنگ کا سامان فروخت کرنا مارکیٹ میں آسان ہو تو اسمگلنگ بڑھ جاتی ہے اگر چھینا ہوا موبائل فون آسانی سے بک جائے تو موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن اگر ان جرائم کی آڑ میں کچھ ممالک پر پابندیاں لگائی جائیں اور دوسرے ملکوں کو ہر قسم کی دہشتگردی کی کھلی چھٹی دیدی جائے تو دنیا میں امن اور سکون کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''