5 324

عوام کی حالت زار

اخبار پڑھتے ہوئے ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے حوالے سے خبروں پر زیادہ توجہ دیں، ان کی فلاح وبہبود کی کوئی بات پڑھتے ہیں تو دل میں اُمید کی شمع روشن ہوجاتی ہے کہ چلو کچھ تو اچھا ہو رہا ہے، دراصل جمہوریت کا تعلق ہی عوام سے ہے اور اگر جمہوری دور میں بھی عام آدمی کی حالت زار بہتر نہیں ہوتی تو پھر کب ہوگی؟ اگر جمہوریت عوام کو کچھ نہیں دے سکتی تو پھر اس قسم کی جمہوریت پر بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں، جن لوگوں نے جمہوریت کا بیج بویا اس کے قوانین وضع کئے اور پھر اسے ایک تناور درخت بننے کا موقع دیا وہ عوام سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے نزدیک جمہوریت کے سارے راستے عام آدمی کی فلاح وبہبود پر پہنچ کر ختم ہوتے ہیں اور جن ممالک میں جمہوریت اپنی اصل روح کیساتھ موجود ہے وہاں عوام بڑی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور جمہوریت کے حوالے سے ہمیں جتنی بھی تشریحات سننے کو ملتی ہیں اور اس کی جتنی خوبیاں بھی بتائی جاتی ہیں وہ ان ترقی یافتہ ممالک میں موجود جمہوریت ہی کے حوالے سے ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے جب وطن عزیز کی طرف نگاہ اُٹھتی ہے اور صورتحال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے یہاں عوام کو جمہوریت کا وہ پھل نہیں ملا جس کیلئے یہ مشہور ہے، یہاں جمہوریت صرف انتخابات کے دنوں میں اپنی جھلک دکھاتی ہے جب جمہوریت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے والے سیاستدان عوام کے پاس ووٹ مانگنے آتے ہیں، اگر ذرا سا غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جمہوریت کی کہانی عام آدمی سے شروع ہو کر عام آدمی پر ہی ختم ہوتی ہے جنہوں نے جمہوریت کی داغ بیل ڈالی جمہوریت کیلئے کام کیا، اسے ایک نظام کے طور پر پوری دنیا میں منوایا ان کے سارے فلسفے، سوچوں اور قوانین کا نچوڑ یہی ہے کہ عام آدمی کو کیسے سہولت دی جائے اور عام آدمی کی زندگی کیسے آسان بنائی جائے؟ تعلیم کے بغیر جمہوریت کا پودا پروان نہیں چڑھتا مشہور یونانی مفکر سقراط کا کہنا ہے کہ اصل بہادری وہ ہے جو خطرات کے متعلق صحیح علم سے پیدا ہوتی ہے نیک وبد کا امتیاز اس کی بنیاد ہونا چاہئے، آج ہم نے تعلیم کو تجارت بنا کر رکھ دیا ہے یہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ منافع بخش صنعت کے روپ میں سامنے آئی ہے، جمہوریت کا دم بھرنے والوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جن لوگوں کے ووٹوں سے ہم اقتدار میں آتے ہیں ان کی اکثریت اچھی تعلیم سے محروم ہے چار پانچ فیصد مراعات یافتہ طبقات کے بچے ہی معیاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں جس جمہوریت کا چلن ہے اس میں یہ سب باتیں دور دور تک نظر نہیں آتیں، یہاں لوگ پریشان ہیں، آئے دن خودکشیاں ہورہی ہیں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ کرونا وائرس نے پوری کردی ہے۔ لوگوں کو حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ وہ سود پر قرضے لیں جو ایک مرتبہ سود کی لعنت میں گرفتار ہوجاتا ہے پھر اس کا بچنا محال ہوجاتا ہے، اب تک کئی خاندان ان سودی قرضوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوچکے ہیں۔ کیا ہمارے یہاں یہ عام خبر نہیں ہے کہ غربت سے دل برداشتہ ماں نے تین بچوں سمیت نہر میں چھلانگ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا؟ کووڈ19 نے ہمارے معاشرے کا تانا بانا بگاڑ کر رکھ دیا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے، کرونا کے پھیلتے ہی ہمیں معلوم ہوگیا کہ ہم نے صحت پر کتنی سرمایہ کاری کی تھی؟ سہولیات کے ناکافی ہونے کی وجہ سے ہمارے کتنے مسیحا کرونا کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے؟ جب ڈاکٹروں کیلئے سہولیات کا یہ عالم ہو تو پھر عام آدمی کی کیا حالت ہوگی؟ کیا بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور میں لیڈی ریڈنگ جیسے مزید تین ہسپتالوں کا تعمیر کرنا ضروری نہیں تھا؟ فنڈز تو ہر سال مختص کئے جاتے ہیں لیکن جاتے کہاں ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ انہیں جہاں خرچ ہونا چاہئے تھا وہاں خرچ نہیں ہورہے۔ آج کے اس جدید دور میں کوئی پاگل ہی جمہوریت کو برا کہہ سکتا ہے لیکن جمہوریت کی موجودہ خامیوں کو دور کرنے کی کوشش تو کریں، جمہوریت کے ثمرات جب تک عام آدمی تک نہیں پہنچتے اس وقت تک یہ آمریت سے بدتر ہی رہے گی۔ ہمارے یہاں کی مروجہ جمہوریت میں یہی خرابی ہے کہ یہ چند خاندانوں تک محدود رہتی ہے جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کا ٹولہ عوام کی حالت زار کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بھائی، بیٹے، بیٹیاں، بھتیجے اور خاندان کے دوسرے مامے چاچے اہم عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں، یہ سوچنے کی زحمت کوئی بھی گوارا نہیں کرتا کہ آیا وہ ان عہدوں کے مستحق بھی ہیں یا نہیں؟ کرونا وائرس کو آپ ہمارے اعمال کا شاخسانہ کہیں یا ایک آزمائش لیکن ہم ابتلا کے اس دور میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اپنے گریباں میں جھانک سکتے ہیں۔ آج دنیا کی تقریباً ہر قوم اس مصیبت میں مبتلا ہے اور سب اپنے اپنے انداز میں اس سے نجات حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شاید یہی وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل