1 411

خشوگی رپورٹ کی امریکی تلوار

جمال خشوگی کے قتل کی رپورٹ کی صورت نائن الیون کے بعد سعودی عرب کی کلائی مروڑنے کیلئے امریکہ کے ہاتھ میں ایک نیا ہتھیار آگیا ہے۔ امریکی تحقیقاتی اداروں نے نائن الیون کے واقعے کی ڈور کے تمام سرے سعودی عرب میں تلاش کئے تھے۔ سعودی عرب کے بعد اس کا دوسرا سزاوار پاکستان قرار پایا تھا۔ امریکیوں کا خیال تھا سعودی سرمایہ اور خودکش پائلٹوں کی صورت افرادی قوت اور پاکستان کی سرپرستی میں طالبان کے علاقوں میں ہونے والی منصوبہ بندی نے نائن الیون کے محیرالعقول واقعے کو ممکن بنایا۔ انہی رپورٹس کی بنیاد پر امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستان کو کبھی فرمائش تو کبھی دھمکی کے انداز میںڈومور کہہ کر موجودہ حالت میں پہنچایا۔ اب جمال خشوگی رپورٹ کا سعودی عرب کیخلاف اسی انداز سے استعمال ہوتا رہے گا۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں جمال خشوگی کے قتل کی براہ راست ذمہ داری سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جمال خشوگی کو محمد بن سلمان کی ہدایت پر ریپڈ انٹرونشن فورسز کے اہلکاروں نے قتل کیا۔ جمال خشوگی ترکی النسل سعودی صحافی اور بااثر شخصیت تھے، جن کا خاندان سعودی عرب کے شاہی خاندان کے قریب سمجھا جاتا رہا ہے۔ جمال خشوگی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے اور اپنے کالموں میں سعودی نظام اور حکمرانوں پر ہلکی پھلکی تنقید بھی کرتے تھے، یہ بات ولی عہد محمد بن سلمان کو گوارا نہیں تھی۔ جمال خشوگی کو ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے کے اندر داخل دیکھا گیا مگر گیٹ پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں انہیں باہر نکلتے نہ دیکھا جا سکا، جس سے یہ خیال کیا گیا کہ انہیں سفارت خانے کے اندر ہی قتل کر کے باقیات کو تلف کیا گیا ہے۔ ترکی اور امریکہ نے روزاول سے ہی اس قتل کی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد کی۔ یہ تنازعہ ترکی، امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سنگین شکل اختیار کر گیا۔ سعودی عرب اور محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے قتل سے لاتعلقی کا اظہار کیا مگر بعد میں امریکی دباؤ پر اس آپریشن میں شریک افراد کیخلاف کارروائی کی گئی۔ کارروائی کے باوجود یہ کہا جاتا رہا کہ اس قتل سے محمد بن سلمان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ قتل انٹیلی جنس اہلکاروں کا ذاتی فعل تھا۔ امریکہ نے اس معاملے پر انٹیلی جنس رپورٹ تیارکرنے کا اہتمام کیا اور اب بائیڈن انتظامیہ نے یہ رپورٹ جاری کی ہے جس کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کا حکم براہ راست محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ رپورٹ کے بعد امریکہ نے کئی سعودی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کیں مگر محمد بن سلمان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں۔ رپورٹ کے اجرا سے پہلے امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان سے بات کی۔ انہوں نے شاہ سلمان کو دونوں ملکوں کے تعلقات کا مضبوط اور شفاف بنانے کا یقین دلایا مگر اس گفتگو میں خشوگی رپورٹ کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب جمال خشوگی کے قتل کے بعد امریکہ اور اس کے آزاد اداروں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا کر رہا تھا مگر ٹرمپ انتظامیہ اور ان کے اسرائیل نواز داماد اس دباؤ کو سعودی عرب سے رعایتیں حاصل کرنے کا استعمال کر رہے تھے۔ انہی میں ایک رعایت اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پاکستان پر پڑنے والا حالیہ دباؤ تھا۔ سعودی ولی عہد امریکہ کی اسرائیل نواز لابی کو خوش کرنے کیلئے پاکستان جیسے اہم ترین مسلمان ملک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تحفہ پیش کرنا چاہتے تھے۔ اسی کوشش میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں شدید بگاڑ بھی دیکھا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا بستر گول ہونے کے بعد حالات تبدیل ہوگئے اور امریکہ نے سعودی عرب کی کلائی مروڑنے کا سلسلہ شروع کیا تو خشوگی رپورٹ کو پبلک کرنے کا فیصلہ بھی اسی پالیسی کا حصہ بنا۔ اس عرصے میں سعودی عرب نے پاکستان کیساتھ تعلقات کو بہتر اور چین کیساتھ رابطے مضبوط کرنے کی کوششیں شروع کیں جس سے امریکہ میں یہ خدشات پیدا ہوئے کہ سعودی عرب امریکہ کی کسی غیرضروری دباؤ کے باعث چینی کیمپ کا حصہ بن سکتا ہے، یہ تاثر کسی حد تک درست ہے۔ سعودی عرب ابھی تک امریکہ اور چین کے درمیان حیران وششدر کھڑا ہے۔ ایک طرف سی پیک کی چکاچوند ہے تو دوسری طرف امریکہ کیساتھ برسوں پرانا یارانہ۔ اس لئے سعودی عرب دو قدم ایک سمت میں اُٹھاتا ہے تو دوقدم دوسری جانب۔ اس لئے امریکہ نے خشوگی رپورٹ کو اب سعودی حکمرانوں کے سر پر تلوار بنا کر لٹکا دیا ہے۔ بالخصوص سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جو بڑی حد تک فیصلہ سازی پر حاوی ہو چکے ہیں، اب مستقل واچ لسٹ میں آچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے ذریعے اب سعودی عرب کو مستقل بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور سعودی عرب کو چین کے کیمپ کی طرف جانے سے روکا جائے گا۔ جب بھی اسے محسوس ہوگا کہ سعودی عرب امریکی اثر رسوخ سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو خشوگی قتل کیس کی رپورٹ کی گرد جھاڑ کر ولی عہد کو کنٹرول کیا جاتا رہے گا۔ امریکہ اس طرح کی حکمت عملی مختلف ملکوں میں اختیار کرتا آیا ہے۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟