2 430

گردش کرتا سرمایہ

کاروبار دوست ماحول سرمائے کو اپنے جانب کھینچتا ہے’ جن ممالک میں صنعتیں ترقی کر رہی ہیں وہاں پر اس کا کھلے عام مشاہدہ کیا جا سکتا ہے’ اس کے برعکس جن ممالک میں کاروبار کیلئے سازگار ماحول میسر نہیں ہے وہاں سے سرمایہ منتقل ہو جاتا ہے’ حتیٰ کہ مقامی سرمایہ کار بھی ناسازگار ماحول میں سرمایہ لگانے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں’ پاکستان میں2008ء کے بعد اس کا مشاہدہ دیکھنے کو ملا، جب توانائی بحران اور بدامنی کے باعث ہماری صنعتیں بنگلہ دیش اور ملائیشیا منتقل ہو رہی تھیں۔ بنگلہ دیش اور ملائیشیا نے پاکستان سے جانے والے سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا اور انہیں وہ مراعات دیں جو انہیں پاکستان میں میسر نہیں تھیں’ مذکورہ دونوں ممالک کی حکومتوں نے جو مراعات صنعتکاروں کو مہیا کیں’ اس کی قیمت انہیں زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور لوگوں کو روزگار کی صورت میں وصول ہو گئی بلکہ چند سالوں میں بنگلہ دیش کی معیشت اور کرنسی پاکستان کی نسبت بڑھ گئی۔ مشرق وسطیٰ کی مارکیٹوں میں بنگلہ دیش کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا’ لیکن صنعتکاروں کیلئے بنگلہ دیش کی طرف سے مہیا کی گئی مراعات دیرپا نہیں تھیں’ اب صورتحال یہ ہے کہ صنعتکار بنگلہ دیش سے بھی اپنا سرمایہ نکالنے کیلئے سوچ رہا ہے کیونکہ چند سال پہلے تک انہیں جو مراعات حاصل تھیں’ وہ مراعات اب کافی حد تک کم ہو گئی ہیں’ ٹیکس میں دی گئی چھوٹ بھی ختم ہو چکی ہیں’ اس لئے سرمایہ کار ایسے کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں ہے جہاں اسے سازگار ماحول کیساتھ ساتھ سرمائے میں اضافے کا یقین ہو۔ بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ ممالک ہر کچھ عرصہ کے بعد سرمائے کو کھینچنے کیلئے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں’ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ’ روس اور یورپی ممالک جان بوجھ کر اپنے ہی ملک کی کسی جگہ بحران پیدا کرتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی دوسری ریاست یا علاقے میں ماحول کو تجارت کیلئے سازگار قرار دیکر صنعتکاروں کیلئے مراعات کا اعلان بھی کر دیتے ہیں تاکہ ان کے ملک کا جو علاقہ پسماندہ رہ گیا تھا، صنعتیں لگا کر اس علاقے کو خوشحال بنایا جا سکے اور مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کئے جا سکیں۔عالمی سطح پر سرمائے کی بڑے پیمانے پر منتقلی اور گردش کے پس پردہ اگرچہ اہم مقاصد ہوتے ہیں’ جن میں دوسرے ممالک کی معیشت کو متاثر کرنے کیساتھ ساتھ غیرقانونی سرمائے کو تحفظ فراہم کرنا سرفہرست ہوتا ہے’کورونا وائرس کے وبائی مرض کے بعد سرمایہ کاروں کے اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے کہ ملازمین کو آفس بلا کر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی پر مجبور کرنے اور سینکڑوں ملازمین پر اُٹھنے والے دفتری اخراجات کو کیسے کم کیا جائے’ ابتدائی مرحلے میں 20سے 25 فیصد ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ اسی طرح دکان یا سٹور پر بیٹھ کر کسٹمرز کا انتظار کرنے کی بجائے آن لائن شاپنگ کو اس قدر فروغ دیا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی عام روایتی مارکیٹوں کی رونقیں ماند پڑنے لگی ہیں’ آن لائن شاپنگ کے ذریعے آپ آن لائن آرڈر کر کے وہ سامان منگوا سکتے ہیں’ جس کے ریٹس اور کوالٹی کی گارنٹی بھی دی جاتی ہے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے ایام میں پاکستان ٹیکسٹائل ملز کو اضافی آرڈر ملے ہیں، کیونکہ بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے آرڈر نہیں لئے جا رہے تھے بظاہر پاکستان کی ٹیکسٹائل ملز کی ترقی عارضی ہے لیکن صارفین کو سہولت اور کوالٹی بہتر کر کے اس کاروباری تعلق کو مستقل بنایا جا سکتا ہے، اس حوالے سے تاجر برادری اور حکومت کو غور کرنا چاہئے۔ پاکستان کے معروضی حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو آن لائن بزنس میں حکومتوں کی منصوبہ بندی سے لیکر صنعتکار اور عام تاجر کی پلاننگ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارے پڑوس میں بھارت ہم سے کئی گنا آگے ہے۔ معاشی امور کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آن لائن بزنس اور سرمائے کی گردش اور منتقلی کے نئے انداز کو اگر بروقت نہ سمجھا گیا تو پھر پاکستان بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ہم صنعتکاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، اگر آن لائن کاروبار کیلئے بھی بروقت اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سرمایہ اس جگہ پر منتقل ہو جائے گا جہاں پر کسٹمر کو سازگار ماحول اور مقابلے کے دور میں اسے مراعات حاصل ہوں گی۔ اس ضمن میں کرنے کا کام یہ ہے کہ پاکستان میں آن لائن کام کرنے والوں کی تربیت کا حکومتی سطح پر بندوبست کیا جائے’ آن لائن بزنس سے منسلک افراد کو یہ باور کرایا جائے کہ شفافیت’ کوالٹی اور کسٹمر کو سہولت پہنچانے کا اگر خیال نہ رکھا گیا تو ہمارا کسٹمر’ سرمایہ اور اعتماد ختم ہو جائے گا۔ آن لائن کاروبار کو ریاستی سرپرستی کی فوری ضرورت ہے کیونکہ سرمائے کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے لازم ہے کہ ہمارا تاجر ملکی اور غیرملکی کسٹمر کا اعتماد حاصل کرے’ اگر کسٹمرز کو کوالٹی اور پرائس پر تحفظات ہوں تو اس کے ازالے کیلئے فورم مہیا کیا جائے’ یہ سارے کام ریاست کے کرنے کے ہیں’ لیکن جب اعتماد ختم ہو جاتا ہے تو دوبارہ اسے بحال کرنا آسان نہیںہوتا’ ارباب اختیار کو اس کی طرف فوری توجہ دیکر تدبیر اختیار کرنی چاہئے تاکہ آنے والے معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہونا ہمارے لئے آسان ہو۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں