p613 276

الیکشن کمیشن کے احکامات کی تکمیل کے تقاضے

ڈسکہ میں دھاندلی کے الزامات اور پریذایڈنگ افسروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی پر الیکشن کمیشن کے حکم پر کمشنر اور آر پی او کے عہدوں سے ہٹانے کا عمل اگر چہ علامتی سزاء ہے لیکن بہرحال یہ ایک مستحسن روایت ہے جس کے بعد سرکاری حکام کسی قسم کے غیر قانونی احکامات ماننے سے قبل سوبار سوچیں گے اور وہ کسی دبائو میں نہیں آئیں گے۔ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ کمشنر اور ڈی پی او کی ایما کے بغیر ممکن نہ تھا دونوں افسروں کے تبادلے کی وجہ ان کے اے سی آر میں درج کی جانی چاہئے اور آئندہ ان کو حساس اور ذمہ دارانہ عہدوں کیلئے نا اہل قرار دیا جائے انضباطی کارروائی کے بغیر تبادلہ احکامات کی تو تعمیل ہے لیکن یہ کافی نہیں حکومت شفافیت کی سب سے بڑی علمبردار ہے یہ اس کے قول وفعل کا امتحان ہے کہ وہ ان سرکاری افسروں کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے خلاف اپنے طور پر بھی مزید کارروائی کرے گی تاکہ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں حکومت پر الزامات درست نہ ہوں۔
پرانے ٹائیر انسانی زندگی کیلئے بڑا خطرہ
پرانی گاڑیوں میں اور خاص طورپر مسافر گاڑیوں میں پرانے ٹائروں کے استعمال سے حادثات اور پرانے ٹائروں کے کاروبار کے بارے شکایات کا متعلقہ حکام کو سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ مشکل امر یہ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے پاس بھی اس مشکل کاکوئی حل نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہے جسے بروئے کار لاکر پرانے ٹائروں کے استعمال کو روکا جاسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کاروبار ہی سراسر غیرقانونی ہے کیونکہ متروک ٹائروں کے کاروبار کا مطلب ایک ایسی چیز کی فروخت ہے جو استعمال کے قابل نہ رہنے پر متروک کردیا گیا، پرانے ٹائروں کے کاروبار کو دوسری سیکنڈ ہینڈ چیزوں کی طرح کا کاروبار قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ٹائروں کی مرمت ممکن ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا حامل معاملہ ہے جو غیرقانونی اورغیراخلاقی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ جعلی موبل آئل اور استعمال شدہ موبل آئل کو دیسی طریقے سے چھان کر فروخت کرنے کا کاروبار بھی جعلسازی اور انسانی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ جعلی تیل کے استعمال سے لوگوں کی قیمتی گاڑیاں تباہ ہورہی ہیں مگر پشاور کے مرکزی علاقے میں پرانے ٹائروں اور استعمال شدہ موبل آئل فروخت کرنے کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے، اس کی روک تھام سے احتراز ملی بھگت اور اعلیٰ شخصیات وحکام کا ازخود اس کاروبار سے بلاواسطہ وبالواسطہ طور پر ملوث ہونا ہے یا پھر ملی بھگت اور بدعنوانی اس کاروبارسے آنکھیں بند کرنے کی وجہ ہے۔ اس ضمن میں جلد سے جلد قانون سازی کرنے اور جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد کر کے دونوں کاروبار بندکرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو مزید کھلی چھٹی نہیں دینی چاہئے۔
افغان مہاجرین کا غیرقانونی کاروبار
پشاور میں افغان مہاجرین کی جانب سے جائیدادیں بنانے اور بڑے کاروبار سے وابستگی کی اکثر وبیشتر خبروں کی اشاعت ہوتی ہے بعض اوقات حکومت بھی تحقیقات کا عندیہ دیتی ہے لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی قدغن اور کارروائی سامنے نہیں آتی۔ افغان مہاجرین کی پراپرٹی، گاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کے کاروبار میں بھاری سرمایہ کاری وکاروبار کیش پر ہونا ملکی خزانہ کوٹیکس سے محروم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔افغان مہاجرین کی ایک بڑی اکثریت پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہے جس کا کھوج لگانا مشکل ہے بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ حکومت پراپرٹی کے کاروبار پر نظر رکھنے کے اقدامات کی طرف متوجہ ہوئی ہے حکومت کو چاہئے کہ تمام غیرقانونی کاروبار بند کرنے اور اثاثے ضبط کرنے کا اقدام شروع کرے اور کسی کو بھی غیر قانونی کاروبار کی اجازت نہ دی جائے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان