p613 277

مشرقیات

بخاری شریف میں صدقے کی برکت سے متعلق ایک عجیب واقعہ بیان کیاگیا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک رات ایک نیک آدمی صدقہ دینے کے لئے کسی ضرورت مند کی تلاش میں نکلا۔ رات بہت تاریک تھی جس کے سبب اس نے اپنا صدقہ چور کے ہاتھ میں تھما دیا۔ صبح ہوئی تو اس نے لوگوں کو کہتے سنا کہ ” رات ایک چور کو صدقہ دے دیاگیا ہے۔” جس نے بھی سنا اس نے صدقہ دینے والے کو برا بھلا کہا۔ صدقہ کرنے والے اس نیک آدمی نے جب یہ سنا تو اسے شدید پریشانی لاحق ہوئی کہ چور کو دیا ہوا مال حق تعالیٰ کے ہاں کیسے قبول ہوگا؟دوسری رات یہ نیک بندہ دوبارہ اٹھا اور کسی ضرورت مند کو ڈھونڈنے لگا۔ اس بار یہ اپنا صدقہ ایک مالدار تاجر کے ہاتھ میں رکھ آیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں میں پھر باتیں چل رہی تھیں کہ ‘ ‘ اس رات تو ایک تاجر کو صدقہ دیاگیا ہے۔” اس نے جب یہ سنا کہ اس کا صدقہ تاجر کو ملا ہے تو یہ ایک بار پھر پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ تاجر کو دیا ہوا مال پتہ نہیں’ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں؟تیسری رات پھر یہ نیک بندہ کسی ضرورت مند کو تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ لیکن اب کی بار تو حد ہی ہوگئی کیونکہ یہ رات کے اندھیرے میں ایک بری عورت کے ہاتھ میں صدقہ رکھ آیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح صبح ہوئی اور جب حقیقت کا پتہ چلا تو سخت مایوس ہوا۔ اسے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ مال بھی ضائع گیا اور صدقہ بھی قبول نہ ہوا۔ یہ کام ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے اور یہ اپنی اسی پریشانی کو لئے کہیں چلا جا رہا تھا کہ اچانک اسے غیب سے ایک آواز سنائی دی۔ اس نے غور سے آواز کو سنا تو کوئی اسے کہہ رہا تھا ” تم پریشان کیوں ہو؟ تمہاری مراد تو پوری ہوگئی۔ حق تعالیٰ نے تمہارے صدقات کو قبولیت کا شرف بخشا ہے۔ صدقہ کا مال لینے کے بعد چور نے چوری کرنے سے توبہ کرکے حلال روزی کمانا شروع کردی اور حق تعالیٰ نے اس کی توبہ بھی قبول فرمالی۔ دوسری طرف تاجر نے اپنے مال سے فقیروں اور ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری کرنا شروع کردی ہیں جبکہ وہ ایسا کنجوس تھا کہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا بالکل پسند نہیں کرتا تھا اور رہی وہ بری عورت تو اس نے بھی اس حلال کمائی کے صدقے کی برکت سے برے کام سے توبہ کرلی ہے جبکہ وہ اپنی اولاد کا پیٹ بھرنے کے لئے یہ برے کام ایک عرصے سے کرتی چلی آرہی تھی۔ اس نے ہمیشہ کے لئے خود کو اس سے پاک کردیا اور حق تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول فرمالی۔٭ایک دفعہ ایک کافر نے عین نماز عصر کے لئے تیار ہونے کے وقت حضرت علی المرتضیٰ سے یہ سوال کیا کہ کون کون سے جانور انڈے دیتے ہیں اور کون کون سے بچے؟ اس کی غرض یہ تھی کہ سب جانوروں کی تفصیل بیان کریں گے اور با جماعت نمازکاوقت قضا ہو جائے گا۔ آپ نے فوراً جواب دیا کہ جن جانوروں کے کان اندر ہیں وہ انڈے دیتے ہیں اور جن جانوروں کے کان باہر ہیں’ وہ بچے دیتے ہیں۔ وہ سن کر حیران ہوا۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے