3 35

بینظیرانکم سپورٹ’دوائی مہنگی ،تجاوزات اورفحش کیفے

میرے نزدیک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اگر پارٹی منشور اور وعدوں کے مطابق کام کرنے کیلئے کوشاں کسی ایک عہدیدار کا نام لیا جائے تو وہ یقینا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس کفالت پروگرام کی روح رواں ڈاکٹر ثانیہ نشتر ہی ہوں گی۔ مجھے ان کے حوالے سے کسی حسن ظن کے اظہار اور ان کو قریب سے جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ان کی کارکردگی وجدوجہد ازخود اس امر کی گواہی دیتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس امر کا تجربہ ہے کہ میرٹ اور انصاف پر کام کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، کسی سیاسی حکومت میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کیلئے عزم وحوصلہ چاہئے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام سے نہایت ناجائز اور حرام طریقے سے فائدہ حاصل کرنے والے جن سرکاری افسروں اور عملے کو بے نقاب کیا ہے اور امداد کے مستحق ہرگز نہ ہونے کے باوجود امدادی رقم وصول کرنے والے افراد کی جس طرح کی فہرست تیار کر کے ان کو رقم کی ترسیل روک دی گئی ہے اس کیلئے حوصلہ چاہیے تھا، آگے انکوائری اور وصولی وسزاء کا کام حکومت کا ہے۔ اس سارے عمل میں ان کو خود تحریک انصاف کے وزراء وبااثر اراکین کے دبائو کا سامنا یقینا ہوا ہوگا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی اس تحسین آمیز عمل کے دوران کچھ ایسی شکایات ضرور سامنے آئی ہیں جن کی طرف توجہ اور تحقیقات کی ضرورت ہے۔ بہت سے ایسے افراد جو حقیقی معنوں میں مستحق ہیں ان کے نام پر جعلی طریقوں سے گاڑیاں منگوانے اور رقوم کی ترسیل یا دیگر ایسے عوامل وسرگرمیوں کے باعث جس سے ان کے مستحق نہ ہونے کا تاثر ملا اور ان کی امداد بند کر دی گئی، ان کی فریاد فوری سننے، تحقیقات اور اطمینان کے بعد ان کی مالی مدد کی بحالی کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مجھے دو شکایات موصول ہوئی ہیں، ایک سے میرے معاون کی بات بھی ہوئی ہے جو خود کسی فیکٹری میں چوکیدار ہیں ان کی زوجہ کا کارڈ اسلئے بلاک کردیا گیا ہے کہ ان کی شناختی کارڈ پر گاڑی خریدی گئی ہے۔ سادہ لوح شخص نے دردبھری آواز میں بتایا کہ ان کے نام پر تو درکنار ان کے باپ داد کے نام پر بھی کبھی گاڑی نہیں تھی اور نہ ہی وہ اس کا تصور کرسکتے ہیں۔ میرے معاون نے دو مرتبہ ان سے شناختی کارڈ کا نمبر مانگا لیکن انہوں نے جو نمبر بھجوائے وہ مبہم تھے جو میں نہیں سمجھ سکی بہرحال ان صاحب سے موبائل نمبر 0315-9699 295پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ایک اور فریاد معروف خان نے چارسدہ سے کی ہے جو بیمارہیں اور ان کی کمر پر رسولی ہے، قرض دار بھی ہیں، ان کی بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بندش کی شکایت ہے، ان سے فون نمبر 0333-205 1788پر رابطہ کیا جا سکتا ہے چونکہ یہ دونوں افراد اپنا مسئلہ تک درست سے بیان نہیں کرسکتے۔ ان افراد سے رابطہ اور ان کے حوالے سے معلومات کے بعد حقدار ہونے کی صورت میں امداد کی بحالی پر توجہ کی خصوصی گزارش ہے۔ایک قاری کے بیٹے کو ڈاکٹرنے Rivotril(2mg) تجویز کی ہے جس کی تیس گولیوں کے پیک کی کمپنی قیمت 275 روپے ہے جبکہ نمک منڈی کے ہول سیل مارکیٹ سے 700روپے میں بلیک میں فروخت ہوتی ہے، جس کی دوکاندار رسید بھی نہیں دیتے۔مذکورہ دوائی کا استعمال مریض کو دو تین سال تک کرنا پڑتا ہے اور روزانہ ایک سے دو گولیاں کھانی پڑتی ہیں، مرگی کے ہزاروں لاکھوں مریض ہیں اس دوائی کا ناغہ بھی نہیں کیا جا سکتا، مریضوں کی مجبوری سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جاتا ہے اس کااندازہ دوائی کی کمپنی قیمت اور بلیک میں فروخت سے لگایا جاسکتا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنیوالے ادارے محکمہ صحت، ضلعی انتظامیہ اور حکمرانوں سبھی کیلئے لمحہ فکریہ اور فوری کارروائی کا حامل معاملہ ہے۔ یہ توآٹا چینی اور کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی اور مہنگافروخت کرنے سے بڑھ کر نازک اور قابل مذمت غیرقانونی اقدام ہے جس کے ذمہ داروں کو کسی طور معاف نہیں کیا جانا چاہئے۔جنوبی وزیرستان سے ایک غیرواضح سا پیغام ملا ہے، بہرحا ل مدعا یہ ہے کہ ڈی سی صاحب سروے کے حوالے سے انصاف سے کام لیں اور حقیقی سروے کرائی جائے تاکہ متاثرین اور مستحقین کا حق ضائع نہ ہو۔آئمہ مساجد کیلئے اعلان شدہ وظیفے کے نہ ملنے پر کئی پیغامات دوبارہ آئے ہیں ان سے کئے گئے وعدے کی تکمیل حکومت کیوں نہیں کر سکتی اس کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے، کم ازکم آنے والے بجٹ میں حسب وعدہ رقم مختص ہو تو وعدہ وفا ہوگا۔بورڈ بازار میں تجاوزات پھر سے قائم ہونے کی شکایت ہے،برقی پیغام میں کہا گیا ہے کہ ٹریفک پولیس اور ٹائون اہلکار مٹھی گرم ہونے پر مین روڈ پر فٹ پاتھ بند کرنے والے پھل فروشوں کو ہٹاتے نہیں۔ مٹھی گرم کی جاتی ہے یا نہیںبورڈ بازار میں ٹھیلے کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں کیا یہ حکام کو نظر نہیں آتے، کیا ان کو علم نہیں، اگر ہے تو کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ وزیربلدیات توجہ دیں تو راہگیروں کو چلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔سیٹھی ٹائون سے ہمارے ایک قاری نے علاقے میں نیٹ کیفے میں قابل اعتراض فلموں کی نمائش کی شکایت کی ہے اُن کا کہنا ہے کہ علاقہ پولیس اس فحاشی کے اڈے سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود کارروائی نہیں کرتی۔یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے علاقے کے نوجوانوں اور بچوں پر منفی اثرات مرتب ہونا تو فطری امر ہے۔ خباثت کے اس مرکز سے تحریک پاکر بے راہ روی اختیار کرنے اور افسوسناک قسم کی کوئی ممکنہ صورتحال ناممکن نہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کو اس طرح کے نیٹ کیفوں پر کڑی نظر رکھنی چاہئے اور فحاشی کے جس قسم کے بھی مراکز اور ذرائع ہوں اُن کا سدباب ہونا چاہئے۔
ہر بدھ کو شائع ہونے والے اس کالم کیلئے قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 03379750639 پر میسج کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟