p613 281

کورونا کی نئی لہر ،احتیاط کے تقاضے

صوبائی دارالحکومت پشاور میں کورونا کی ایک نئی لہر نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جبکہ حکومت نے ایک بارپھر لاک ڈائون کرنے پر غور شروع کردیا ہے اس حوالے سے بعض علاقوں میں محدود پیمانے پر پابندیاں پہلے ہی لگانے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں جبکہ بازاروں کو سیل کرنے اورمتاثرہ علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون لگانے کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں اس ضمن میں اخباری خبروں کے مطابق مسلم آباد،کاکشال،یونیورسٹی ٹائون،شامی روڈ اور حیات آباد فیز4اور7میں سمارٹ لاک ڈائون نافذکر دیا گیا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں پابندی ہٹانے یا نرمی کی وجہ سے کورونا کیسز بڑھنے کی خبریں آرہی ہیں ایس اوپیز پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال نازک ہوتی جارہی ہے اس سلسلے میں وزیراعلیٰ نے صورتحال پر غور کرنے اور مناسب تدابیر اختیار کرنے کیلئے ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی سعی کی ہے اور ممکن ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک کوئی لائحہ عمل سامنے آچکا ہو تاہم اس سلسلے میں ذمہ داری صرف حکومت ہی پر عاید نہیں ہوتی بلکہ عوام خود بھی حفاظتی تدابیر اختیار کریں اور ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی مشکل میں پھنسنے سے گریز کی راہ اختیار کریں،بد قسمتی مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ شروع دن سے ہی اس بارے میں سنجیدگی اختیار کرنے سے گریزاں ہیں،جبکہ حکومتی سطح پر ویکسین کی فراہمی پر بھی بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ مشکل صورتحال سے نمٹنے میں آسانی ہو۔
کمپیوٹر،نئے ٹیکسوں کی زد میں
ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز ویلیو ایشن کی جانب سے استعمال شدہ درآمدی کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،پرنٹر،سرور،یوایس بی ،وی جی اے کیبلز،بیٹری اور چارجرزکی نئی ویلیوایشن رولنگ کے تحت30سے40فیصد کی ادئیگیوں کے باعث درآمد شدہ استعمال شدہ کمپیوٹرز وغیرہ کی قیمتوں میں بھی40فیصد سے زائد اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں اور درآمد کنندگان میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے بیشتر درآمدکنندگان نے بیرونی ممالک سے پہلے سے طے شدہ معاہدوں کے تحت اپنے سودے کی ترسیل روک دی ہے کیونکہ ان کو کسٹم اور ڈیوٹی کی مد میں اس قدر زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے ان اشیاء کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا۔درآمد کنندگان کے مطابق ڈائریکٹوریٹ نے استعمال شدہ کمپیوٹر وغیرہ کی نئی در آمدی ویلیو ایشن کے تعین میں ان سے کوئی مشاورت نہیں کی اور یکطرفہ اقدام سے درآمدی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگا۔امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں کمپیوٹرز اور ان سے متعلقہ اشیاء پر ٹیکس کم کرنے کی حکمت عملی سے بھر پور استفادہ کیا جارہا ہے اور جدید تعلیم کے حصول میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے نئی نسل کو آشنا کر کے دنیا میں مقابلے کیلئے سہولیات فراہم کی جارہی ہیں مگر یہ نہایت بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں غلط پالیسیوں سے نوجوان نسل کو اس ضمن میں قدغنوںکاشکار کیا جارہا ہے دنیا کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اس وقت اس میدان میں ترقی کرلی ہے اور دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں میں اس کے کمپیوٹر ماہرین چھائے ہوئے ہیں جہاں وہ پاکستان کے خلاف معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہمارے مفادات کو شاید نقصان پہنچارہے ہیں مگر ہم اپنے ہاں نت نئے ٹیکس لگا کر یا پھر موجودہ ٹیکسوں میں اضافہ کر کے لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کی پالیسیاں نافذ کررہے ہیں پاکستان میں غربت پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس کے باوجود لوگ کسی نہ کسی طور کمپیوٹر کے شعبے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سرکاری سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کے برعکس حوصلہ شکنی کے اقدامات سے الٹی گنگا بہانے کی سعی کی جارہی ہے حکومت کو زندگی کے ہر شعبے خصوصاً تعلیم اور پھر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے شعبے میں آسانیاں فراہم کرنے کی بجائے نت نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے گریز کرنا چاہئے تاکہ کمپیوٹر کی تعلیم عام ہونے سے ہم دنیا کے مقابلے کے قابل ہوسکیں۔
مہنگائی کی وجوہات؟
وفاقی وزیراطلاعات ونشریات سینیٹرشبلی فرازکے تازہ بیان پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ مہنگائی کی کچھ وجوہات پر ہمارا کنٹرول نہیں اگرچہ انہوں نے عوام کو مہنگائی کے چنگل سے نجات دلانے کی بھی بات کی ہے تاہم مہنگائی پر کنٹرول نہ رکھنے کے حوالے سے ان کی بات کو لیا جائے تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ حکومت عوام کو اس مصیبت سے نجات دلانے میں کامیاب ہوسکے گی حالانکہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں جس قدر پریشان ہے اس پر دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں،آج ہی(پیر) کے اخبار میں دو خبریں انتہائی پریشانی کا باعث ہیں ایک توشیر فروشوں کی جانب سے من مانی کرتے ہوئے دودھ کی قیمت میں مسلسل اضافے کی ہے اور اس وقت شہر بھر میں دودھ(جس کے خالص ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی)140روپے لیٹر میں فروخت کیا جارہا ہے جو سرکاری طور پر90روپے میں ملنا چاہیئے،اسی طرح مقامی روٹی کا وزن بھی کم کر دیا گیا ہے جبکہ اس صورتحال پر متعلقہ حکام مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور یوں عام غریب لوگوں کو منافع خوروں کیلئے آسان ٹارگٹ بنا کر ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کیا اس صورتحال کا نوٹس لینے پر کوئی تیار ہوگا یا عوام کو اسی طرح لوٹ مار کا شکار کیا جاتا رہے گا؟۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں