p613 281

مشرقیات

ایک بار خلیفہ ہارون الرشید حج ادا کرنے مکہ مکرمہ آیا تو اپنے وزیر فضل بن ربیع سے کہا کہ کسی عالم دین سے ملنا چاہتاہوں ، چنانچہ فضل خلیفہ کو لے کر مختلف علماء کے پاس لے گیا اور علماء نے خلیفہ کو مختلف وصیتیں کیں ۔ مگر خلیفہ کو ان سے مل کر تشفی نہیں ہوئی اور اس نے فضل سے کہا کہ مجھے کسی اور عالم کے پاس لے جائو ۔ چنانچہ وہ اسے لے کر قاضی فضیل بن عیاض کے خیمہ پر پہنچے اور اجازت چاہی ۔ انہوں نے پوچھا : کون ہے ؟ وزیر نے کہا : امیر المومنین تشریف لائے ہیں ۔
فضیل نے پوچھا : مجھ سے امیر المومنین کا کیا کام ؟
وزیر نے کہا : آپ پر امیر المومنین کی اطاعت واجب نہیں؟
آپ نے دروازہ کھول دیامگر ۔ ۔۔ساتھ ہی چراغ گل کردیا اور خود سمٹ کر ایک کونے میں کھڑے ہوگئے ۔
خلیفہ اور وزیردونوں آگے بڑھے اورجب گھپ اندھیر ے میں خلیفہ کے ہاتھ فضیل بن عیاض کے ہاتھ سے ٹکرائے تو فضیل بن عیاض کہنے لگے :
کیا ہی نرم و گداز ہاتھ ہے ، اگر قیامت کے دن عذاب الٰہی سے محفوظ رہا ، پھر تو قف کے بعد کہنے لگے ۔۔۔”امیرالمومنین ! عمر بن عبدالعزیز نے جب زمام خلافت ہاتھ میں لی تو سالم بن عبداللہ بن عمر ، محمد بن کعب القرظی اور رجاء بن حیوة (تینوں جلیل القدر علمااور تابعی ہیں) کو بلا بھیجا اور کہا : میں (حکومت کی ) آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں ، مجھے کوئی مشورہ دو ۔ امیرالمومنین ! انہوں نے خلافت کو آزمائش سمجھا ، لیکن آپ اور آپ کے ساتھی اسے نعمت سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑے ہیں ”۔
”امیرالمومنین ! میں آپ کو اس دن سے خوف دلاتا ہوں ، جب بڑے بڑے مضبوط قدم ڈگمگا جائیں گے اور یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے ساتھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ساتھیوں جیسے ہیں ، جو آپ کو ان کی سی باتوں کا مشورہ دیں ؟ ”
یہ باتیں سن کر ہارون الرشید اتنا رویا کہ اس کو غش آنے لگا ۔ وزیر نے حضرت فضیل سے کہا !
امیرالمومینن سے نرمی برتئے ! حضرت فضیل وزیر سے کہنے لگے : تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے انہیں مار ڈالا اور اب مجھے نرمی کی تلقین کرتے ہو! خلیفہ جب ذرا سنبھلا تو فضیل سے کہنے لگا : کچھ اور فرمایئے ! الغرض ہارون الرشید آپ کی عبرت آموز نصیحتیں سنتا رہا اور روتا رہا ۔ کچھ اور کچھ اور کا مطالبہ کرتا رہا ۔ جب اس کی طبیعت میں بہت رقت آگئی تو جاتے وقت ایک ہزار دینار پیش کئے اور کہا : انہیں اپنے اہل وعیال پر صرف کر دیجئے اور اپنے رب کی عبادت کے لئے ان سے قوت حاصل کیجئے !
فضیل ہارون الرشید اور اس کا وزیر دونوں چپکے سے باہر نکل آئے اور خلیفہ نے وزیر سے کہا : جب تم سے میں یہ کہوں کہ کسی عالم کے پاس لے چلو تو اسی قسم کے آدمی کے پاس لے جایا کرو۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''