5 332

سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ

امریکہ میں حالیہ انتخابات کے بعد کیپٹل ہل پرڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے حملے سے قبل میرا خیال یہ تھا کہ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے درمیان مخاصمت اور مخالفت پاکستان جیسے ملکوں کا خاصا ہے ۔ لیکن اب تو شاید امریکہ و یورپ سے لیکر جنوبی ایشیا اور جہاں کہیں جمہوری نظام ہے وہاں انتخابات کی گرما گرمی بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ایک ہی ملک و قوم کے افراد ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔یہ بھی جمہوری نظام کا شاخسانہ ہے کہ بعض ملکوں میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اور دشمنیاں ملکی اداروں میں بھی پھیل جاتی ہیں۔ جو ان اداروں کی چولیں ہلا دیتی ہیں۔ جن ملکوں میں جمہوری نظام کی جگہ کوئی اور نظام کارفرما ہوتا ہے وہاں بھی بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ملک کے عوام دو متضاد گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔عرب بہار میں یہی ہوا اور اس نے مصر لیبیا یمن اور شام جیسے ملکوں کو برباد کر کے رکھ دیا اور اس جیسے بہاروں کے پیچھے بھی جمہوریت کے بڑے علمبرداروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ان عرب ممالک میں جوخانہ جنگیاں جاری ہیں اس کے مختلف گروہوں کو مختلف ملکوں کی آشیرباد حاصل ہے ۔اس کے اثرات پچھلے دنوں پاکستان میں بہت اونچے درجے پر محسوس کئے گئے۔ جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں مسلم لیگ نون پی پی پی اور جے یو آئی کے اکابرین اور کارکنان سے پاکستان کے سیاسی میدان میں یہ انوکھی اور منفرد سی تبدیلی ان سے ڈھائی برس گزر جانے کے بعد بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ دراصل ان تینوں پارٹیوں کے اکابرین کو اقتدار کا چسکا کافر شراب کی طرح لگا ہوا ہے اور ان کے منہ سے یہ کافر چھٹتی ہی نہیں۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے بطور وزیر اعظم حلف لینے کے دن سے لیکر آج تک یہ تینوں سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ ان کی ایسی ”مساعی جمیلہ” میں عروج اس وقت دیکھنے میں آیا جب یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے اور حفیظ شیخ کو ہرایا۔ اس سیاسی سرگرمی کو اپوزیشن(پی ڈی ایم) نے اپنی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے اسے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد قرار دیا اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے لگے ۔اس میں شک نہیں کہ گیلانی صاحب کی کامیابی واقعی بڑا اپ سیٹ تھا لیکن کاش اس حوالے سے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو اور ناصر حسین شاہ کی آڈیو وغیرہ منظر عام پر نہ آتے ۔ لیکن بہر حال عمران خان بھی وکھری ٹائپ مٹی سے بنے ہیں۔ انہوں نے فی الفور ان انتخابات کے ایک دن بعد پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیااور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے ۔لیکن اس حوالے سے جو چیز الارنگ ہے اور پاکستان کی نئی نسل کے لئے خطرات سے خالی نہیں وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے والے دن پارلیمنٹ کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور مسلم لیگ نون کے چار بڑے رہنمائوں اور ان کے کارکنوں کے درمیان معرکہ آرائی ہے ۔ پی ٹی آئی کے کارکن اپنے رہنما کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی خوشیاں منا رہے تھے اور اپوزیشن نے اس اہم دن پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا تھا تو پھر اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کو اس دن یہاں نہیں آنا چاہئے تھا اور اگر آگئے تو پھر کم از کم اتنا تحمل کرتے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے سامنے عمران خان کے حوالے سے نازیبا گفتگو نہ کرتے ظاہر ہے کہ کوئی بھی اپنے ممدوح کے بارے میں نازیبا گفتگو سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر مصدق ملک،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کا نوجوان سیاسی کارکنوں کے منہ لگنا اور ان کے دوبدو آنا کسی طرح بھی ان کے شایاں شان نہیں۔ مصدق ملک جس طرح رسیاں تڑوانے کے انداز میں پی ٹی آئی کے کارکنوں پر حملہ آور ہو رہے تھے اور شاہد خاقان عباسی ان کو ایمبولینس میں بھجوانے کی دھمکیاں دے رہے تھے یہ یقیناً پاکستان کے مستقبل کی سیاسیات کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں۔دوسری طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احسن اقبال پر جوتا پھینکا یہ بھی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے ۔ طرف دار میڈیا اگرچہ گنہگار کو بے گناہ اور بے گناہ کو گنہگار ثابت کرنے کا شغل فرماتا رہتا ہے لیکن اس قسم کے واقعات میں ملکی سلامتی کی خاطر صحیح رپوٹنگ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ مریم اورنگزیب کے حوالے سے یہ خبر کہ ان کا دوپٹہ کھینچا گیا یا دھکا دیا گیا غیر جانبدارمیڈیا اور رپورٹنگ سے کسی طرح ثابت نہیں ہوا۔ لیکن مسلم لیگ نون کے کارکن اور سیاسی رہنمائوں میں اس خبر سے بہت اشتعال پھیلا ۔ سارے رہنمائوں کا فرض ہے کہ سیاست ضرور کریں لیکن خدارا قوم کو تقسیم کرانے اور دشمن بنانے سے گریز کریں۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور بھائی بھائی ہیں۔ سیاست بھی کریں انتخابات بھی لیکن ان چیزوں کو دشمنی میں تبدیل نہ کیا جائے کہ یہ ملک وقوم کے لئے بہت خطرناک ہے اور مستقبل کی نسلوں پر برے ا ثرات مرتب کرنے والی ہیں۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن