5 335

افغانستان میں قیام امن کی نئی کوششیں

افغانستان میں قیام امن کیلئے بین الاقوامی برادری کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔ افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ اور پھر کابل سے ہوتے ہوئے 8مارچ کو اسلام آباد پہنچے، جہاں انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور علاقائی صورتحال کے علاوہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے کی جانیوالی کوششوں پر پیش رفت سے پاکستان کے عسکری قیادت کو آگاہ کیا۔ اس سے پہلے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان وفد کے رہنما ملا عبدالغنی برادر سے بھی تفصیلی ملاقات کی اور پھر کابل کیلئے رخت سفر باندھا تاکہ افغان حکام کو خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی پیش رفت سے آگاہ کریں اور ساتھ ہی افغان حکام کو امریکہ کی اس تشویش سے بھی آگاہ کریں جو بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان کی تیزی سے ابتر ہوتی صورتحال کے حوالے سے لاحق ہے۔ پچھلے سال 28فروری کو امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے امریکہ کو یکم مئی سے پہلے پہلے افغانستان سے فوجی انخلا کو یقینی بنانا ہوگا گوکہ بائیڈن انتظامیہ اس معاہدے کا ازسرنو جائیزہ لے رہی ہے لیکن اس معاہدے کی پاسداری نہ کرنا کسی بھی صورت امریکہ اور خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو یقین ہے کہ افغانستان سے نہ نکل جانے کی صورت میں طالبان کی طرف سے تشدد کی کارروائیوں میں مزید شدت آسکتی ہے۔ دوسری صورت میں اگر امریکہ کے باقی ماندہ 2500فوجی کسی معاہدے کے بغیر افغانستان کو چھوڑ جاتے ہیں تو یہ ا فغانستان کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ ویسے تو افغانستان کی مجموعی صورتحال اچھی نہیں ہے لیکن مشرقی افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں پچھلے ہفتے ہزارہ کمیونٹی اور پھر خواتین میڈیا ورکرز پر پے درپے حملے افغانستان میں سیکورٹی کی ابتر صورتحال کا واضح پتہ دیتی ہے۔ امریکہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ امن معاہدے میںکسی بھی موڑ پر ناکامی کو بنیاد بناتے ہوئے طالبان موسم بہار میں نئے جنگی کارروئیوں کیلئے تیار ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل تک رسائی کا واحد راستہ عوامی ووٹ سے ہی بنے گا۔ صدر غنی کے اس بیان سے سیاسی حلقوں میں تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔ شائد اسی بات کا ادراک کرتے ہوئے امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے نام اپنے خط میں موجودہ سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر افغانستان کے اندر ایک وسیع البنیاد قومی حکومت بنانے پر زور دیا ہے۔ خط میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان کے اندر پرتشدد کارروایئوں میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ خط کا متن ملک میں قیام امن کے حوالے سے صدر اشرف غنی کی قائدانہ صلاحیتوں پرعدم اعتماد کا کھلا مظہر ہے۔ اس خط کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے ایک مجوزہ امن منصوبہ بھی طالبان کو ارسال کر دیا ہے۔ تقریباً آٹھ صفحات پر مشتمل اس مجوزہ امن پلان میں قومی حکومت کے قیام کے علاوہ اسلامی اقدار کی پاسداری، عدلیہ، میڈیا، خواتین اور اقلیتوں کی آزادی کیساتھ ساتھ مذہبی آزادی کی بھی با ت کی گئی ہے۔ امریکہ نے ترکی سے درخواست کی ہے کہ وہ اقوا م متحدہ کے زیراہتمام طالبان قیادت اور افغان حکومت کے نمائندوں پر مشتمل ایک اجلاس بلالیں تاکہ اس مجوزہ امن پلان کے حوالے سے جلد سے جلد اتفاق رائے قائم کی جاسکے۔ گوکہ دونوں دھڑوں کی جانب سے تاحال اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے اس اجلاس سے کوئی اچھی توقع تو نہیں رکھی جاسکتی لیکن اقوام متحدہ کی موجودگی کی صورت میں کسی قسم کی غیرمتوقع کامیابی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ دریں اثنا امریکہ نے اقوام متحدہ کے سامنے یہ بھی تجویز پیش کی ہے کہ روس، امریکہ، چائنا، انڈیا، ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ایک مشترکہ کانفرنس بلائی جائے تاکہ علاقائی قوتوں کے مؤقف کو بھی درست انداز میں سنا جائے اور خطے میں پائیدار امن کی خاطر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔ ادھر روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی 18مارچ کو افغانستان کے موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک مشاورتی اجلاس بلایا گیا ہے۔ اجلاس میں امریکہ، چائنا اور پاکستان کے علاوہ طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں چیف آف آرمی سٹاف سے اپنی ملاقات کے دوران امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اُمید ظاہر کی کہ پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور خصوصاً علاقائی قوتیں افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی خاطر اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کے جنگ زدہ عوام کو زندگی کی نئی اُمنگ دینے کیلئے نیک نیتی کیساتھ سنجیدہ کوششیں کریں۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''