fakkhar

پی ٹی آئی کا ایم ٹی آئی

صوبے میں تحریک انصاف کی تاریخی حکومت کو سات سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ تبدیلی کے نام پر جو کچھ اس صوبے کے ساتھ ہوا اگر آپ پشاور کے رہائشی ہیں تو صرف اپنی گلی سے باہر نکل کر دیکھئے اور خود سے سوال کیجئے کیا بدلا؟ چند قدم کے فاصلہ پر صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی حالت ہی دیکھئے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل، بد انتظامی کی خبریں اپ کو ملتی ہی رہیں گی۔ یونیورسٹی کے زمانے سے ہی میڈیکل کالج کے طالب علموں کے ساتھ واقفیت رہی ہے 2008 سے 2013 تک پشاور دہشت گردی کے طوفان میں گزرا،بدقسمتی سے اس دور میں پشاور شہر پر ایک یلغار کی سی کیفیت تھی،روزانہ کی بنیاد پر ہم حملوں کو رپورٹ کر رہے تھے۔ہسپتال بھی خبروں کا مرکز بن گیا۔ اکثر ان ڈاکٹرز حضرات کے ساتھ گفتگو ہوتی، سیاسی صورتحال بھی زیر بحث آتی۔بحث چاہے جو بھی ہو میرے یہ دوست درمیان میں کپتان کو لے ہی آتے اور ان کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر مجھے یقین ہو جاتا کہ کپتان کم از کم پشاور تو فتح کر ہی لے گا۔قصہ مختصر2013میں کپتان کے ہاتھوں میں پختونخوا حکومت آئی۔تو صحت کے شعبہ میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس یعنی ایم ٹی آئی کے نام سے ایک انقلاب کا سوچا گیا اوراس کے لئے قانون کے داعی بنے۔ جو لوگ اسمبلی میں قانون سازی کے معیار سے واقف ہیں وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں اس وقت کے وزیر صحت شہرام ترکئی اور چند ممبران کے علاوہ کتنے ہونگے جنہوں نے اس بل کو پڑھا تک ہو۔ اکثریت کی آواز آئی اور بل منظور کر دیا گیا۔ قانون بننے کے بعد تقریباً تمام تدریسی ہسپتالوں میں ہر وہ قانون لاگو ہوا۔
قانون کے تحت ہر ایم ٹی آئی کا ایک بورڈ آف گورنرز عمل میں لایا گیا۔اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔تبدیلی کے نام پر حیرت انگیز تبدیلیاں کی گئیں۔سینئر ڈاکٹرز شکوہ کرنے لگے کہ جونئیر ڈاکٹرز کو راتوں رات سینئر ڈاکٹرز کے اوپر بٹھایاگیا الزام لگایا کہ نہ کوئی قانون نہ کوئی قاعدہ، باہر سے آنے والوں پر نوازشات کی بارش اور پاکستانی ماہرین کو اپنے ہی ہسپتال میں رہنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا۔ ڈاکٹرز نجی محفلوں میں فرمانے لگے کہ ڈسپلن کے نام پر سینئر پروفیسرز کو جونیئر سے بے عزت کرایا جا رہا ہے۔اس صورتحال کو دیکھ کر کچھ سینئر ڈاکٹرز تو خود ہی پویلین لوٹ گئے۔ کہا گیا یا تو ایم ٹی آئی میں آ جائیں اور ایک ہی ہسپتال کے ساتھ عمر بھر کا سودا کر لیں یا محکمہ صحت جانے آپ جانیں۔ ایم ٹی آئی کے نفاذ کا اصل مقصد تھا کہ تمام ہسپتالوں کو خودمختاری دی جائے ان کو انتظامی خود مختاری اور مالی خودمختاری دی جائے۔ کیونکہ حکومت ان بڑے ہسپتالوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ حکومت نے ایم ٹی آئی کے ذریعے ہسپتالوں کو اتنا خودمختار بنا دیا کہ وہ خود ہی اپنے وسائل پیدا کریں خود پر خرچ کریں اور جتنا ہوسکے حکومتی بجٹ پر انحصار کم کریں۔ لیکن سات سال گزرنے کے باوجود یہ تمام بڑے ہسپتال بشمول ایل آر ایچ فنڈنگ کے لئے حکومت ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اگر ہم انتظامی خود مختاری کی طرف دیکھیں تو سب سے پہلے کئی افراد کو انتظامی عہدوں پر بٹھایا گیا۔ جن میں سے کئی ایک کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
پہلے ان بڑے ہسپتالوں میں ڈی ایم ایس ہوتے جن کی جگہ منیجروں کو متعارف کرایا گیا اورکہا جاتا ہے کہ یہ منیجر ڈاکٹر ہی نہیں تھے اور نہ ہی ان کا ہسپتالوں میں کام کا کوئی تجربہ تھا۔اس لئے روز اول سے ہی ہسپتال کے سٹاف اور منیجر کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہ ہو سکی۔ اس کا سب سے زیادہ اثر مریضوں پر ہوا۔ اس طرح ہر ہسپتال کا ایک اہم عہدہ ایم ایس کا ہوتا تھا۔اس عہدہ کو ہسپتال ڈاکٹر یعنی ایچ ڈی سے تبدیل کیا گیا۔ جو کام ایم ایس صاحب ڈیڑھ لاکھ روپے میں کرتا تھا اب وہی کام ایک ایچ ڈی لگ بھگ سات لاکھ روپے میں کرتا ہے۔ اس طرح چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو ایم ڈی کے ساتھ تبدیل کرایا گیا اور جو کام چیف ایگزیکٹو ایک گریڈ بیس کا ڈاکٹر ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں کرتا تھا اب ایم ڈی صاحب وہی کام سات آٹھ لاکھ روپے میں کرتا ہے۔ اس طرح نرسنگ میٹرن جو کام ایک لاکھ روپے میں کرتی تھی اب وہی کام ایک نرسنگ ڈائریکٹر دو تین لاکھ روپے میں کرتی ہیں۔جو کام ایک اکائوٹنٹ اپنی نارمل تنخواہ میں کرتا تھا اب وہ ایک فائنانس ڈائریکٹر دو تین لاکھ روپے میں کرتا ہے۔ ان تمام بڑی بڑی تنخواہ کا بوجھ اب بھی حکومت پر پڑ رہا ہے آٹھ سال پہلے جب یہ قانون متعارف کرایا گیا تھا اس کے پیچھے بنیادی سوچ یہی کار فرما تھی کہ ان ہسپتالوں کا مالی بوجھ کم کیا جائے مگر بدقسمتی سے بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے۔ جب ان کو انتظامی خودمختاری دی گئی تو وہی ہوا جو اس ملک میں ہوتا آیا ہے بھرتیوں میں جب آزادی مل جائے تو اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں کو والی حالت ہوجاتی ہے۔بڑوں کی بے جا مداخلت کی وجہ سے بہت سے سینئر ڈاکٹرزچلے گئے اور کئی شعبے بند کر دئے گئے۔اس کا براہ راست اثر نئے سپیشلائزیشن کی تربیت پانے والے ڈاکٹرز اور مریض پر ہونے لگا۔
پتا نہیں ایل آر ایچ اور صوبے میں ہسپتالوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر کچہری کا ایک واقعہ یاد آیا جب ایک شخص کے دو بیٹوں کو بیان نزع کے تحت قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس شخص نے ایک وکیل سے کیس لڑنے کے حوالہ سے بات کی تو وکیل نے کہا دونوں کا صرف چالیس ہزار۔ یہ سن کر وہ شخص آگ بگولہ ہو گیا اور کہا اس کا مطلب تم اس کیس کو ہی مذاق سمجھ رہے ہو۔ مذکورہ شخص نے پانچ لاکھ روپے پر ایک بڑے وکیل کو کیس سونپا۔ کچھ عرصہ بعد پہلا وکیل اس شخص سے کچہری میں ملا تو کیس کے بارے میں پوچھا۔ اس شخص نے افسوس سے سر ہلایا وکیل صاحب دونوں بیٹوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے وکیل نے متاثرہ شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔”ارے بھائی صاحب، یہی کام میں آپ کا چالیس ہزار میں کروا رہا تھا۔”

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے