2 75

مشرقیات

سلطان محمد تغلق کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ایک دن اس نے حضرت شیخ نصیر الدین دہلوی کو دعوت پر بلوایا’ حضرت جانتے تھے کہ محمد تغلق نہایت تند مزاج اور غصہ ور اور متکبر بادشاہ ہے۔ اس خیال سے کہ انکار سے فتنہ کا اندیشہ ہے دعوت میں آگئے۔ سلطان نے دعوت کے بعد کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔ حضرت نے فرمایا یہ درندوں کا سا غصہ جو تمہاری طبیعت اور عادت میں داخل ہے اس کو چھوڑ دو۔
سلطان نے ایک تھیلی نقد کی اور دو قطعہ صوف سبز اور سیاہ شیخ کے آگے رکھے تاکہ وہ خود اپنے ہاتھ سے اٹھائیں۔ نظام الدین نے جو سلطان کے مصاحبوں اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مریدوں میں سے تھے حضرت شیخ کے آگے سے کپڑا اور زرنقد اٹھا کر خدام کے حوالے کردیا اور حضرت کی پاپوش سیدھی کرکے ان کے سامنے رکھ دی۔ سلطان کو خواجہ کی یہ حرکت ناگوار گزری اور تلوار کھینچ کر کہا تیری کیا مجال اور طاقت تھی کہ تو نے یہ نازیبا حرکت کی؟
خواجہ نے کہا اگر میں اس صوف اور بدرہ کو نہ اٹھاتا تو حضرت انکار فرمادیتے اور حضور کی دل شکنی ہوتی اور حضرت کی جوتیوں کا سیدھا کرنا میرا عین فرض ہے۔ اس جرم پر اگر بادشاہ مجھے قتل بھی کردیں گے تو میں خوش میرا خدا خوش کیونکہ بادشاہ کی ننگ صحبت سے مجھے قیامت تک کے لئے نجات مل جائے گی۔ (سیر العارفین)
ہمیں اپنے غصے پر قابو پانا چاہئے اور بطور خاص امراء اور حاکمین وقت کو اپنا ظرف بڑا رکھنا چاہئے کیونکہ اگر وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے تو پھر حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیںگے۔
امام ابو یوسف جن کا اصل نام یعقوب بن ابراہیم تھا اور جو عتبہ انصاری صحابی کی چھٹی پشت میں تھے’ اپنے وقت کے امام’ فقیہہ’ اکمل صاحب حدیث اور امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے متقدم تھے۔ بغداد میں آپ قاضی القضاة تھے۔ تین خلفاء یعنی مہدی’ اس کے بیٹے ہادی اور ہارون رشید کے زمانے میں آپ اس عہدے پر رہے۔ ایک دفعہ ہارون رشید اور ایک یہودی کا مقدمہ آپ کے پاس آیا۔ یہودی خلیفہ سے ذرا پیچھے ہٹ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوا۔ آپ نے فرمایا’ خلیفہ کے برابر آکے کھڑے ہو جائو۔ عدالت انصاف میں کسی کو کسی پر تقدم نہیں’ یہاں شاہ و گدا سب برابر ہیں۔
ہارون رشید آپ کے عدل و انصاف پر بہت خوش تھا اور آپ کی بڑی عزت کرتا تھا۔
حق اور سچ کبھی چھپے نہیں رہتے۔ اصل بات حق اور سچ کہنا اور اس پر ڈٹ جانا ہے۔
قرون اولیٰ کے مسلمان علماء فضلا کا کمال ہی یہی تھا کہ ہمیشہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر حق بات کے لئے تن تنہا ڈٹ جاتے تھے۔ نہ اقتدار ان کا مطمح نظر رہا نہ مال و دولت’ اس لئے کامیاب بھی رہے اور معاشرہ بھی امن کامثالی نمونہ تھا۔ انصاف کا بول بالا رہا۔ ان واقعات سے صرف یہی سبق ملتا ہے کہ حق گوئی اور انصاف کی فراہمی میں حاکم وقت کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد