اپنے حصے کی شمع روش کئے بغیر حالات کی درستی کی اُمید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی زمین میں ہل چلائے اور بیج بوئے بغیر فصل کاٹنے کی توقع رکھنے لگے، ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کی شمع روشن کئے بغیر حالات کو درست ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، ہم ہر دور کی حکومت پر ناکامی کا ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں حالانکہ کسی بھی سماج کی ترقی کا یہ راز ہے کہ جب تک تمام شہری سماج کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہ کریں سماج ترقی نہیں کر سکتا، ہماری پسماندگی کی دوسری اہم وجہ ظلم کیخلاف آواز نہ اُٹھانا ہے، عوام کا ظلم کیخلاف کھڑا نہ ہونا اگرچہ ہمارے سسٹم کی خرابی ہے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس سسٹم میں انہیں انصاف نہیں ملے گا بلکہ وقت اور پیسے کا ضیاع ہوگا تاہم وہ یہ نہیں جانتے کہ عوام کی اس سوچ کی وجہ سے ظالم سینہ سپر ہو جاتا ہے اور دیدہ دلیری کیساتھ ظلم کو جاری رکھتا ہے۔ ”نپولین کا یہ قول مشہور ہے کہ ”دنیا میں ظلم، ظالموں کی وجہ سے نہیں بلکہ شرفا کی خاموشی کے سبب ہے”۔ اسی طرح سے میرے خیال میں سیاست میں خرابیاں ان پڑھ، کم عقل اور غیرذمہ دار افراد کی وجہ سے نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد کی جانب سے خاموشی کی وجہ سے ہیں۔ اہل دانش کا ایک طبقہ ایسا ہے جس نے معاشرے کی خرابیوں سے مایوس ہوکر خود کو ایک طرح سے لاتعلق کرلیا۔ صرف دوستوں کے حلقے میں بے بسی کا رونا روکر پھر خود کو گھر میں مقید کر ڈالا۔ یہی لوگ ہیں جو دراصل معاشرے کی تباہی وبربادی کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس وقت تین طبقات ہیں: ایک وہ جو لٹ رہے ہیں یعنی عام لوگ، دوسرا وہ طبقہ جو لوٹ رہا ہے اور تیسرا وہ طبقہ جو سب سمجھتا اور دیکھتا ہے لیکن خاموش ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ اس معاشرے کی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار یہی تیسرا طبقہ ہے جو نہ خود باہر نکلتا ہے اور نہ ہی مظلوموں کی رہنمائی کرتا ہے۔یاد رکھیں معاشرہ ہم سب کو ملاکر بنتا ہے۔ اس کا درست، غلط، اچھا، برا وہی ہوتا ہے جسے ہم تسلیم کرکے زندگی گزارتے ہیں۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کا تھمنا یا رکنا ناممکن ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ معاشرے میں بھی تبدیلی آنی چاہئے کیونکہ ہر جامد شے بدبودار یا بے جان ہوجایا کرتی ہے۔ وقت ایک سواری ہے جس پر ہم سوار ہیں۔ اگر ہم خود کو تبدیل نہیں کریں گے تو کوئی اور ہمیں تبدیل کر ڈالے گا یعنی دوسروںکے خیالات اور ایجادات ہمارے معاشرے پر حاوی اور اثرانداز ہوجائیں گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم وقت پر سوار ہونا اور اسے چلانا سیکھیں اور اس کیساتھ خود بھی چلنا سیکھیں۔ معاشرے میں صحیح یا غلط وہ ہے جو ہم ایک دوسرے کیساتھ بولتے ہیں۔ اگر اعتماد اور دلیل کیساتھ جھوٹ بولا جائے تو وہ معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے۔ عقائد معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں اور بنیاد کو چلانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ جو ذمہ داران ہیں اور برے بھلے کی تمیز رکھتے ہیں انہیں اپنی خاموشی اور سکوت کو توڑ کر معاشرے کا چہرہ بننا چاہئے اور اس میں تبدیلی لانے کی اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہئے۔دنیا میں سب سے بڑی جنگ اعصاب کی ہوتی ہے، کمزور طبقہ جو اپنی فتح سمجھ کر خاموشی کیساتھ ہار مان جاتا ہے اور کچھ ذمہ دار افراد ہوتے ہیں جو معاشرے کی جنگ اپنے آپ سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور خود اپنے آپ سے ہار جایا کرتے ہیں اور اس طرح سے سارا معاشرہ ہتھیار پھینک دیتا ہے بغیر کوئی لڑائی لڑے یا جنگ کئے اور ایسا معاشرہ پھر دوسرے معاشروں کے اثرات کو قبول کرنے لگ جاتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی لوگوں نے باہر نکل کر اعصاب کی جنگ لڑی ہے انہوں نے نہ صرف جنگ جیتی ہے بلکہ دیگر معاشروں کو بھی اپنے زیراثر رکھا ہے۔ مثلاً آپ اپنے معاشرے کے عام ذمہ دار افراد سے کچھ بنیادی سوالات پوچھئے، آپ حیران ہوجائیں گے کہ سارے معاشرے کے جوابات ایک ہی جیسے ہوں گے، مثلاً یہ کہ ”بھلا مجھ اکیلے کے کرنے سے کیا ہوگا! یہ کام تو سیاستدانوں کا ہے” یا یہ کہ ”کچھ نہیں ہوسکتا، جو نصیب میں ہے وہی ہوگا” وغیرہ یعنی ہمارا پورا معاشرہ اعصابی جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور اس کو تسلیم کرچکا ہے کہ جو بھی ملے چاہے عزت ہو یا پھر ذلت، ہار ہو یا جیت، خیرات ہو یا کسی کا احسان، سب کو اپنا نصیب سمجھ کر تسلیم کرلینا چاہئے اور اپنی کمزوریوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر مان لینا چاہئے، پھر خواہ حکمران ظالم ہو یا نالائق، پانی گندہ اور آلودہ ہو، بجلی غائب ہو، بیٹیوں کی عزت لٹتی رہے، سب کچھ کو اپنی قسمت کا لکھا جان کر قبول کرلینا چاہئے، حالانکہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ”میں ان اقوام کی حالت تبدیل نہیں کیا کرتا جو اپنی حالت بدلنے کیلئے خود سعی اور کوشش نہیں کرتیں”۔ ہمارے ذمہ داران پہلے تو کوشش ہی نہیں کرتے اور اگر کوشش کرنے کی زحمت گوارہ کرتے بھی ہیں تو کامیابی کی گارنٹی یقینی طور پر ہو، وگرنہ دم سادھے رہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ گندم کا ایک دانہ بھی پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کو محض کوشش کرنی ہے اور گندم کا دانہ زمین تیار کرکے اس میں بونا ہے، اس کے بعد کا اختیار کسی اور کا ہے۔ اسی طرح سے معاشرے کو تبدیل کرنے کیلئے بھی آپ کو صرف کوشش کرنی ہے اور کوئی بھی کوشش رائیگاں نہیں جاتی۔ نمک، مرچ یا کوئی بھی دوسرا مصالحہ چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، ذائقہ بدلنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ ہزاروں برس کی کوشش کے بعد کہیں جاکر ہم نے یہ سیکھا ہے کہ اچھے ذائقے کیلئے مصالحے کی مقدار کتنی ہونی چاہئے۔
معاشرے میں تبدیلی کیلئے کتنی اور کس انداز میں کوشش ہونی چاہئے، یہ تجربہ بتائے گا۔سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے اعصابی جنگ لڑنی ہوگی اور منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرنا پڑے گا تاکہ ہماری تھوڑی سی کوشش بھی کچھ نہ کچھ بہتری لاسکے۔ معاشرے میں اسی وقت تبدیلی برپا ہوگی جب آپ میں اور آپ کے آس پاس تبدیلی آئے گی۔ دنیا کے فاتحین کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ کتنی دنیا فتح کریں گے لیکن انہیں بہرحال اپنے آپ پر یہ یقین ضرور تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ تبدیل کرسکتے ہیں۔ خون کی ایک بوتل، لائبریری کیلئے ایک کتاب، ایک شجرِسایہ دار لگانا، کسی کا غم بانٹنے کیلئے ایک ہمدردی بھرا بول کہنا، ایک درست مشورہ، طنز کے بجائے تعریف اور ستائش کے حرف اور میٹھے بول، بیمار کی تیمارداری کرنا، یتیم کا خیال رکھنا، صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا، گاڑی کو درست جگہ پر پارک کرنا وغیرہ یہ سارے وہ کام ہیں جو ہر شہری کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں کرنے چاہئے اگر کوئی شہری روزمرہ کے کاموں میں انصاف کی بجائے کام لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم سماج کی بہتری کیلئے اپنے حصے کی شمع روشن کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
