p613 307

محصوردارالحکومت

وبائی دارالحکومت پشاور میں ٹریفک کے مسئلے کے حل کی نوید چارہ دستوں نے بی آرٹی کی تکمیل سے سنادی تھی لیکن بس ٹریک کی تعمیر کی تکمیل اور سروس کی فعالیت کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد کا اس سروس کے استعمال سے سڑکوں پر ٹریفک کے رش میں کمی آنے کی جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں۔جی ٹی روڈ پر رکشوں پر پابندی ہوسکی نہ ہی پرانی ٹرانسپورٹ کا خاتمہ ہوسکا غیر قانونی سوزوکی اور چن چی سڑکوں پر اسی طرح چل رہی ہیں گدھا گاڑیوں کی جگہ مزید رش کا باعث بننے والی مال بردار گاڑیوں نے لے لی ہے ون وے کی خلاف ورزی اسی طرح معمول کا حصہ ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی تقسیم کے بعد ٹریفک پولیس کی کارکردگی بہتر ہوتی تجاوزات سے سڑکوں کو خالی کرایا گیا ہوتا مگر کچھ بھی تبدیل نہ ہوا صوبائی دارالحکومت کی ہئیت میں تبدیلی لانے کی صوبائی حکومت کی ساری منصوبہ بندی ٹریفک کے رش اور تجاوزات میں گھری نظر آتی ہے صوبائی دارالحکومت میں ایک جدید اور پر سہولت وسبک رفتار پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرانے کے باوجود صوبائی حکومت کے دیگر منصوبوں کو وہ ماحول میسر نہ آسکا جس کی توقع تھی حکومت کو ان سارے عوامل کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اصلاح احوال کی سعی پر توجہ کی ضرورت ہے۔گزشتہ ایک ہی روز کی جو تصویر کشی ہمارے وقائع نگار نے پیش کی ہے اس سے صراحت سے صوبائی دارالحکومت کے شہریوں کی مشکلات اور حکومتی اہلکاروں کی کارکردگی اور منصوبہ بندی کا عقدہ کھلتا ہے گزشتہ روز ہفتہ میں دو روزہ پابندی ختم ہوتے ہی لوگوں کا سیلاب خریداری کیلئے پشاور امڈ آیا جس کی وجہ سے پشاور میں تاریخ کی بدترین ٹریفک جام ہوگئی رہی سہی کسرصوبائی اسمبلی کے سامنے جاری احتجاج نے پوری کر لی جہاں پر مظاہرین نے سوری پل کے مقام پر دونوں جانب سڑک کو ٹریفک کے لئے بند کر دیا تھا۔ اس طرح کے حالات میں پورے شہر کی ٹریفک رک جاتی ہے۔ رنگ روڈ ، گل بہار، ہشت نگری، اندرون شہر ، فردوس، جیل روڈ ، صدر، گلبرگ، ورسک روڈ، یونیورسٹی روڈ اور اس سے منسلک تمام سڑکوں پر دن بھر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں اور ٹریفک کا شدید دباؤ بڑھنے سے شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ احتجاجیوں کی جانب سے خیبر روڈ اور صدر روڈ کو پانچ گھنٹے تک روڈ بلاک کرنے کے باعث صوبائی دارلحکومت پشاور میں ٹریفک کا نظام بری طور پر متاثر ہونا معمول بن گیا ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں پولیس کا کردار صرف تماشائی کا نظر آتا ہے یا پھر چند اہلکار بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو بھی شدید ترین مشکلات کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر جلد سے جلد علاج شروع کرنے کی جن مریضوں کو ضرورت ہوتی ہے ان کی تو زندگی ہی دائو پر لگ جاتی ہے۔کم وبیش اکثر واقعات اور معمول اختیار کرتے مظاہروں کے دنوں میں بالخصوص محولہ قسم کی صورتحال رہنے لگی ہے اس کا مداوا کسی کے پاس نہیں شہریوں کے مسائل اپنی جگہ اس صورتحال سے خود حکومتی عہدیدار اور بیورو کریسی بھی متاثر ہوتی ہے اس مشکل کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ضروری ہے اس حوالے سے شہری ادارے ٹریفک پولیس وپولیس حکام سبھی کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور ان مشکلات کا کوئی نہ کوئی حل اور مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے کم از کم مظاہرین کو سڑک کے ایک حصے ہی پر مظاہرہ کرنے کی اجازت دی جائے اور ٹریفک کی روانی کو ممکن بنایا جائے تو بھی غنیمت ہوگی۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے