5 360

پاکستان۔۔۔مسائل کے گرد اب میں

ایک پارٹی میں اچانک ایک امیر سی عورت اپنے کاندھے پہ ایک کاکروچ بیٹھا ہوا دیکھتی ہے ۔ وہ اس کو فوری طو ر پر جھڑکتی ہے تو وہ اٹھ کر کسی اور کے دوپٹے پہ بیٹھ جاتا ہے ۔وہ بھی جھڑکتی ہے تو وہ کسی اور کاندھے پر بیٹھ جاتا ہے۔۔وہ بھی جھڑکتی ہے تو وہ کسی اور کے سر پہ بیٹھ جاتا ہے۔
ہر ایک کاکروچ سے اپنے آپ کو بچاکر اسے د وسرے کی طرف پھینکنا چاہتا ہے ۔ اسی طرح پارٹی میں بھگڈر مچ جاتی ہے اور ہر طرف شور اٹھتا ہے۔کوئی ادھر بھاگتا ہے۔تو کوئی اُدھر بھاگتا ہے۔ اسی دوران ویٹر آکر اسے نہایت آرام سے پکڑتا ہے اور اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے اور پارٹی میں موجود ہر ایک سکھ کا سانس لیتا ہے ۔اس مختصرسی انگریزی کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگرانسان کو سوچنے اور غور فکرکا ڈھنگ آجائے تو بہت سے مسائل پیداہونے سے پہلے ہی ختم ہوسکتے ہیں۔
دنیا کے بے شمار ملکوں کو لامتناہی اور بے قابونوعیت کے مسائل اور مصائب ورثے میں ملے جو ہر قسم کی ترقی میں رکاوٹ بنے رہے لیکن تمام نامساعد حالات کے باوجوددانش مندانہ فیصلوں کے ذریعے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرکے انہیں ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
اس کے برعکسروز اول سے لے کرآج تک ملک مسائل کی آماجگاہ بنارہا اور درپیش مسائل حل کرنے کے بجائے ملک کے لئے کہیں زیادہ مسائل پیدا کئے گئے ۔۔۔جب بھی کسی مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ،وہ اور زیادہ الجھتا گیا۔۔ نتیجے کے طور پرمسائل کا دور دورہ ہے۔
مسائل کا ایک بڑا انبار ہے۔ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ان مسائل کا ذمہ دار کسی ایک مخصوص حکومت یا حکمران کو ٹھرانا قرین انصاف نہیں ہے بلکہ سب نے ان میں برابر کا حصہ ڈالا ہوا ہے۔۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ایک دانشمند حکمران جب مسائل کے بارے میں متفکر ہوتا ہے تو وہ ان مسائل کی جڑکے بارے میں متفکر ہوتا ہے اور اسے ان مسائل سے اسلئے بھی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ ان وجوہات کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے اور ان وجوہات کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے بیشتر حکمران ان خوبیوں سے عاری تھے نتیجے کے طور پر وہ بہت سے مسئلے جو معمولی توجہ سے حل ہوسکتے تھے وہ نااہلی کی وجہ سے لاینحل ہو کر رہ گئے ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ا گر ان میں مسائل کی جڑتک پہنچنے کی صلاحیت ہوتی تو ملک میں مارشل لاء کبھی نہ لگتے،، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المیہ پیش نہ آتا،دو جنگوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا،بلوچستان میں بار بار مرکز کی مداخلت نہ ہوتی ،علاقیت پسندی اور فرقہ واریت کے جذبات حد اعتدال سے آگے نہ بڑھتے اور ملک کے لئے مسائل پیدا نہ کرتے ۔
بھارت سے حزیمت نہ اٹھانی پڑتی،،قومی زندگی بالخصوص معشیت یوں درہم برہم نہ ہوتی،دنیا بھر میں ایک دہشت گرد اور ناکام ریاست کے طور پر ملک کا امیج خراب نہ ہوتا،ملک دنیا بھر میں نشانہ استہزا نہ بنتا، بلوچستان میں آگ کے شعلے نہ بھڑکتے۔ مسائل کی جڑتک پہنچنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ان تمام آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرناپڑا۔
”زندگی میں مسائل اور مصائب سے کسے انکار ہوسکتا ہے ۔ ۔ ۔۔کیااس دنیا میں ایسے ممالک نہیں جو ہم سے زیادہ مسائل اور مصائب کا شکار ہو ئے ہوں اور قدرت نے ان کے ساتھ ہم سے بھی زیادہ براسلوک کیا ہو اور پھر بھی انہوں نے ہمت ہارنے اور زندگی میں شکست تسلیم کرنے کی بجائے جدو جہد کا راستہ اختیار کیا ہو۔۔۔۔کیا یہ بہتر راستہ نہیں ہوگا کہ ہم حقائق کو من وعن تسلیم کریں لیکن اپنے آپ کو مجبور اور بے کس سمجھنا چھوڑ دیں اور زندگی میں اپنے اچھے اور برے دونوں حالات کے لئے خود اپنے آپ کو ذمہ دار محسوس کریں۔
جانتا ہوں کہ یہ اتنا آسان نہیں لیکن یہ بلاشبہ آنے والے دنوں میں ہماری کامیابی اور مسرت کا نقطہ آغاز ضرور ثابت ہوسکتا ہے۔ اپنے مسائل اور مصائب کے حل کے لئے حقائق کو تسلیم کرنا اور اپنی ذات پر اور اپنے حالات پر بغور نظر کرنا اور خود شناسی سے ہوکر معاملہ فہمی تک پہنچنا اور ان مسائل و مصائب سے اپنے آپ کو نکالنا ہی وہ راستہ ہے جو بالاخر ہمیں سکون اور کامیابی تک پہنچا سکتا ہے۔ ”وطن عزیز میں عوام کو درپیش مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے ان کے حل میں حکومتی دعوے تو بہت ہوتے رہے ہیں لیکن عملی طور پر صورتحال برعکس ہے المیہ یہ ہے کہ ہر دور حکومت کی پالیسیاں مثالی ہوتی ہیں مگر بعد میں آنے والی حکومتیں سابقہ حکمرانوں کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اس دلدل سے نکلیں گے تبھی تبدیلی آئے گی۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس