syed fakhar kakakhel

افغان صدر کا انخلا، جب پاکستان بازی لے گیا(I)

اپریل 1992کابل کی فضاں میں خنکی کے ساتھ بے یقینی تھی۔ وزیر اکبر خان کے علاقہ میں واقع پاکستانی سفارتخانے میں موجود سفارت کے ناظم الامور فدا یونس کاکاخیل سخت اعصاب شکن لمحات سے گزر رہے تھے۔ شاید اپنے کیرئیر میں ان کو پہلی بار اتنے اعصابی دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا۔ افغان دارالحکومت کابل پر بڑی طاقتوں روس اور امریکہ سمیت ہندوستان اور علاقائی ممالک کی پوری توجہ تھی۔ یوں سمجھئے ایک عالمی سکوت تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ روس شکست کھا کر نکل چکا تھا، افغان صدر ڈاکٹر نجیب87 سے اقتدار میں پانچ سال گزارنے کے بعد مستعفی ہو چکے تھے۔ لیکن ایک خوف تھا کہ ڈاکٹر نجیب کو قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور مجاہدین ان کے قابو میں نہیں آ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی بینن سیوان نے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کو اعتماد میں لے کر ہندوستان کے وزیراعظم نرسمہا رائو کو قائل کر لیا تھا کہ وہ مستعفی افغان صدر ڈاکٹر نجیب کو ہندوستان میں سیاسی پناہ دیں۔ چونکہ افغان صدر ڈاکٹر نجیب اور ہندوستان کی نزدیکیاں اس حد تک تھیں کہ ان کی اہلیہ اور بچیاں پہلے سے ہی ہندوستان میں مقیم تھیں اس لئیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کو جلد از جلد دہلی منتقل کیا جائے۔ اس منتقلی کے عمل کو سرانجام دینے کے لئے16اپریل 1993کے دن کا چنائو کیا گیا۔ مقررہ تاریخ اور وقت پر بینن سیوان اپنی ٹیم سمیت خصوصی طیارہ لے کر کابل ائیرپورٹ پر اترا۔ تاہم یہ دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا کہ خود ڈاکٹر نجیب کے اتحادی کمانڈر دوستم کی فورسز نے ائیرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اقوام متحدہ کے ایلچی بینن سیوان کو کہا گیا کہ آپ تو جہاز میں ہی رکے رہیں کیونکہ ڈاکٹر نجیب کو ائیر پورٹ سے واپس کر دیا گیا ہے۔ خود ائیرپورٹ سے ہی بزور اسلحہ رخصت ہونے والے سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب حیران تھے کہ اس کے قریبی ساتھیوں نے ہی دھوکا دیا۔ اس نے گاڑی میں موجود دیگر ساتھیوں کو کہا کہ گھر جانا بھی مناسب نہیں اور اب ایک ہی جگہ ہے جہاں وہ محفوظ ہوں گے اور وہ جگہ تھی کابل میں واقع اقوام متحدہ کا دفتر، اس لئے گاڑی کو اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف موڑا گیا۔جہاز کے اندر موجود اقوام متحدہ کی ٹیم نے کابل گیریژن کے انچارج کمانڈر جنرل نبی عظیمی سے رابطہ کیا۔ نبی عظیمی کو بتایا گیا کہ چونکہ ڈاکٹر نجیب واپس ہو گئے ہیں اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں واقع اپنے مرکز جا سکتے ہیں اس لئے ان کو کم از کم اپنے دفتر جانے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ دوستم اور عظیمی جان چکے تھے کہ اب ڈاکٹر نجیب کا نکلنا محال ہے یہاں تک کہ ریڈیو کابل سے خبر بھی نشر کی گئی کہ ڈاکٹر نجیب کی ملک سے فرار ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے کیونکہ اس کو اپنے کئے گئے اقدامات کا افغان عوام کو جواب دینا ہے اس لئیے اسے فرار نہیں ہونے دیا گیا۔ جنرل نبی عظیمی نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے انہیں جہاز سے اترنے اور اقوام متحدہ کے دفتر جانے کی اجازت دے دی۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی بینن سیوان اس نئی صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوراً اپنے کمپائونڈ پہنچے جہاں ڈاکٹر نجیب پہلے سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔عین اس وقت جب پاکستانی سفارتخانے میں فدا یونس کاکاخیل ریڈیو سیٹ پر ڈاکٹر نجیب کی واپسی کے حوالہ سے خبر سن رہے تھے ان کی نظریں ٹیلی فون سیٹ پر تھیں اور گھنٹی کا انتظار اس بے چینی سے تھا کہ ریڈیو کو ہی بند کر دیا۔ اس نے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کو خبر دے دی تھی اور اب احکامات کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ ڈاکٹر نجیب کی ائیرپورٹ سے واپسی پر ایک لحاظ سے حالات نے پھر پلٹا کھایا۔ اب کیا کریں؟ یہ سوال تھا جو انہوں نے اسلام آباد سے کیا تھا اور اسے بتایا گیا کہ وہ انتظار کرے۔ان سے کچھ فاصلہ پر بھارتی سفارتخانے میں موجود ہندوستانی سفیر وجے کمار نمبیار کی حالت تو انتظار کے باعث ان سے بھی بری تھی۔ اس نے دہلی کو تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ ائیرپورٹ پر جو کچھ ہوا اس کے لئے تو اسے ریڈیو سننے کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سارے آپریشن کی نگرانی وہ خود کر رہے تھے۔ اب اسے ڈاکٹر نجیب سے ملنے اقوام متحدہ کے دفتر جانا تھا لیکن جیسے ہی اس نے دہلی کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ دہلی نے بھی کہا رکو اگلی ہدایات کا انتظار کرو۔ادھر دہلی میں سیکرٹری خارجہ جے این ڈکشٹ نے بالآخر فیصلہ کرلیا۔ گو کہ مشکل فیصلہ تھا کہ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب جیسے اہم علاقائی حلیف کا ساتھ چھوڑا جائے لیکن ہندوستان کے مفاد ہی مقدم تھے اور اب چونکہ طاقت کا محور مجاہدین تھے اس لئیے حقیقتا ڈاکٹر نجیب اب ہندوستان کے کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی سوچا گیا کہ کابل میں موجود ہندوستانیوں کی زندگی کو ڈاکٹر نجیب کے دا ئوپر نہیں لگایا جا سکتا۔ بس فیصلہ ہو گیا ہندوستان سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب سے پیچھے ہٹے گا اس کو سیاسی پناہ نہیں دی جائے گی۔ اس فیصلہ کا احوال بھارتی مصنف اویناش پالیوال نے اپنی کتاب "My Enemy’s Enemy” یعنی "میرے دشمن کا دشمن” میں بیان کیا ہے۔ (باقی کل ملاحظہ فرمائیں)

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟