5 363

کرپشن کا ناسور، ایک مختلف نقطۂ نظر

حمزہ شہباز اگرچہ شریف خاندان کا سب سے زیادہ چمکتا ستارہ نہیں البتہ انہوں نے الیمنٹری سکول کے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو بات کہی وہ چنداں غلط نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کو آپ ایک طرف رکھ دیں، کہ یہ اب ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں تھی کہ ویسے بھی حمزہ کی عمر کے لوگوں کے پاس آج کل ایسے فلسفوں پر سوچنے کا وقت ہی کہاں ہے۔ انہوں نے جو بیان دیا وہ عین حقیقت پر مبنی تھا، ممکن ہے کہ یہ بات انہوں نے اپنے حکومتی اور کاروباری تجربے کے بعد اخذ کی ہو۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان میں کاروبار چلانے والا ہر شخص خوب جانتا ہے۔ چلیں حمزہ کے اس بیان کا ہم اپنے آکسفورڈ سے فارغ التحصیل وزیراعظم کے بیانات سے موازنہ کرتے ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شریف اور زرداری عالمی سطح پر بدنام کرپٹ ہیں۔ البتہ وہ اس بیان کیساتھ ہی اگلے جملے میں پاکستان کو کرپشن سے آزاد کرنے اور اپنے ڈگر پر لانے کیلئے یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ملک کی معیشت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلانے میں ہی اس کے تمام مسائل کا حل ہے۔ وہ اس نظرئیے کی دلیل کے طور پر ریمنڈ بیکر کی کتابCapitalism’s Achilles Heel کو پیش کرتے ہیں، اگر ہمارے محترم وزیراعظم صاحب نے کسی بھی صورت میں یہ کتاب ذرا تفصیل سے پڑھی ہوتی تو وہ جان پاتے کہ اس کتاب کے مصنف نے کرپشن کو سرمایہ دارانہ نظام کا منطقی نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس کتاب کے اندر مصنف نے جو Dirty Money Phenomena کے نام سے ناجائز دولت کے بہاؤ کے بارے میں خیالات پیش کئے ہیں، وہ درآمدات، توانائی گھروں اور موٹرویز کی اصل اور بتائی گئی لاگت کے فرق سے ہی جنم لیتی ہیں اور پھر اس ناجائز دولت کو عالمی بینکوں میں مختلف مالی اداروں، وکیلوں اور اکاؤنٹنٹس کی مدد سے قانونی انداز میں تحفظ دیا جاتا ہے اور سب فریقین اس سے خوب مالی فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، سال2000 سے2017 کے درمیان بڑے مغربی بینکوں نے دنیا بھر سے ناجائز طور پر کمائے گئے تقریباً دو ٹریلین ڈالر کی رقوم کو بینکوں کے ذریعے بوگس کمپنیوں کے نام پر تحفظ فراہم کیا۔ عام طور پر پہچانے جانے والے پانامہ یا سیمان جزائر اس حوالے بدنام تو ہیں البتہ دنیا میں اس طرح کی بوگس کمپنیوں کے ذریعے ناجائز دولت کو تحفظ دینے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہے جہاں اس کھیل کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کی ڈیلاویر نامی ایک چھوٹی سی ریاست اپنے سالانہ بجٹ کا ایک چوتھائی سے زائد حصہ انہی بوگس کمپنیوں کو تحفظ فراہم کر کے کما لیتی ہے۔ اس تمام کھیل میں بلاشبہ ان کرپٹ سرکاری افسران کا خوب ہاتھ ہے جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے اس سارے نظام کو بھرپور انداز میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ عالمی کاروباری مفادات آج کے دور میں بدعنوانی کیساتھ لازم وملزوم ہو چکے ہیں اور یہ دونوں ناسور ذاتی مفادات کے نتیجے میں ہی جنم لیتے ہیں۔ بیکر کی یہ کتاب جب سال2005 میں منظرعام پر آئی تو اس نے یہ انکشاف کیا کہ دنیا بھر کے غریب ممالک سے مغربی بینکوں میں جانے والی اس کرپشن کی رقم کا حجم تقریباً پانچ سو ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ انہی ممالک کی جانب سے غریب ملکوں کو دی جانے والی امداد کا کل حجم پچاس ارب ڈالر سے زیادہ نہیں اور دس برس بعد یہ ناجائز ذرائع سے کمائی جانے والی رقم کا آف شور مغربی بنکوں اور مالی اداروں میں کل حجم ایک ہزار ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا تھا۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں بدعنوانی کا آغاز اسی اور نوے کی دہائی میں ہوا اور جو اس کا قصوروار دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹھہراتے ہیں وہ ایک نہایت گنجلک اور پیچیدہ مسئلے کو خاصی محدود نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عالمی سرمایہ دارانہ نظام دنیا بھر میں اپنے کردار اور طریقۂ کار کے حوالے سے کچھ بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ آپ ابھی حال ہی میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات اور اس کی انتخابی تحریک کا بخوبی جائزہ لیں تو یہ سمجھ جائیں گے کہ بدعنوانی صرف مقامی مسئلہ نہیں۔ اگر ہم اپنی دو بڑی سیاسی جماعتوں پر لگائے جانے والے الزامات اور ان کی وجوہات کو درست سمجھتے ہیں تو یقین جانیں حسین نواز جوبائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن سے زیادہ برے نہیں اور زرداری صاحب تو ٹرمپ کی کارستانیوں، مکاریوں اور کرپشن کے آگے فرشتہ نظر آتے ہیں۔ اگر آسان الفاط میں کہا جائے تو زرداری اور نواز شریف نے اس نظام کو کرپٹ نہیں بنایا بلکہ اس نظام نے زرداری اور نواز شریف کو کرپٹ کیا ہے۔ ایک بات ہمیں سمجھ لینا ہوگی کہ اگر پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کے ڈگر پر تیزی سے چلے گا تو ہماری معیشت تو بہتر ہوگی ہی البتہ کرپشن میں بھی اضافہ یقینی ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک ہم اس بوگس اور ناقص سیاسی تماشے کا مزہ تو لے ہی سکتے ہیں کہ جس میں ایک پارٹی دوسری پر کرپشن کے الزم لگاتے نہیں تھکتی اور دوسری والی پہلے پر سیاسی انتقام کا شکوہ کرتے خوار ہو رہی ہے۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟