1 463

جہانگیر ترین سے ڈسکہ الیکشن تک

خبریں دلچسپ اور گرماگرم ہیں، نون لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ فرماتے ہیں، جہانگیر ترین کو فراڈیا نہیں سمجھتا۔ شاہد خاقان عباسی کا ارشاد ہے، جتنے ارکان قومی وپنجاب اسمبلی ترین کیساتھ پیشی پر عدالت گئے اس سے وفاقی اور پنجاب حکومت پر عدم اعتماد ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی والوں کے دل وجگر میں بھی جہانگیر ترین کی محبت انگڑائیاں لے رہی ہے، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ چند ماہ قبل جہانگیر ترین فیملی کے ہمراہ علاج کیلئے ملک سے باہر گئے، تو یہ دونوں جماعتیں بلکہ مرحوم ومغفور پی ڈی ایم کے سارے چھوٹے بڑے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ عمران خان نے احتساب کی بجائے جہانگیر ترین کو بھگا دیا۔ اب سبھی اُمید بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین، ہمایوں اختر کے خالہ زاد اور مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں، اس رشتے سے وہ سید یوسف رضا گیلانی اور پیر بگاڑا کے عزیز بھی ہیں۔ سیاست میں اُن کی آمد کی وجہ مخدوم سید احمد محمود ہیں، جنہوں نے پہلی بار انہیں اپنے حلقہ سے ایم این اے منتخب کروایا تھا۔ تب کاروبار میں سانجھا تھا، پھر ناراضگیاں پیدا ہوئیں، معاملات تھانے کچہری تک جا پہنچے، اب راوی چین لکھتا ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے فی الوقت یہ ہے کہ 8ارکان قومی اسمبلی اور21ارکان پنجاب اسمبلی اعلانیہ جہانگیر ترین کیساتھ کھڑے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ان کے گروپ میں 15ارکان قومی اسمبلی اور 40ارکان پنجاب اسمبلی شامل ہیں۔ وقت پڑا تو 3سینیٹر بھی ترین کے قافلے میں دکھائی دیں گے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ ہمارے ملتانی مخدوم قبلہ شاہ محمود قریشی گزشتہ روز جہانگیر ترین کی بابت پوچھے گئے سوالات پر پہلے تڑپے اور پھر بھڑک اُٹھے۔ شاہ جی کے یہ طور درست بھی ہیں، ترین نے ان کا وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا خواب یوں چکناچورکروایا کہ 2018ء کے الیکشن میں جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے پیر کو ایک لڑکے بالے سے ہروا دیا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ این اے75 ڈسکہ سے نون لیگ کی اُمیدوار سیدہ نوشین افتخار تحریک انصاف کے اسجد ملہی کو 17ہزار ووٹوں سے شکست دیکر قومی اسمبلی کی رکن بن گئیں۔ فروری میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پریذائڈنگ افسروں اور ”دھند” نے ہاتھ کی صفائی کچھ زیادہ ہی دکھا دی تھی جس کی وجہ سے گزشتہ روز اس حلقہ میں دوبارہ انتخاب ہوا۔ سیدہ نوشین افتخار نے ایک لاکھ دس ہزار پچھتر ووٹ لئے، اسجد ملہی نے ترانوے ہزار چار سو تینتیس ووٹ، آپا فردوس عاشق اعوان فرماتی ہیں ”ہمارا مقابلہ غنڈہ عناصر سے تھا” فروری میں اور پھر 10اپریل کو غنڈہ گردی کس نے کی اس بارے سبھی جانتے ہیں، مایوسی کا عالم یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار نے گزشتہ روز اپنا ووٹ ہی کاسٹ نہیں کیا۔ آپا کو الیکشن کمیشن نے نوٹس بھی دیا ہے کیونکہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابی حلقہ میں قدم رنجہ فرمایا اور صرف یہی نہیں بلکہ ترقیاتی پیکج کا بھی اعلان کیا۔ یقین کیجئے کہ ہم کسی مہذب معاشرے میں رہ رہے ہوتے تو آپا فردوس اعوان نے پریس کانفرنس میں (الیکشن سے 2دن قبل) نون لیگ کی اُمیدوار سیدہ نوشین افتخار بارے جو زبان استعمال کی اس پر ہتک عزت کے دعوے ہوتے اور آپا کی ساری جائیداد بک جاتی ہر جانے بھرتے بھرتے، وہ تو شکر ہے کہ پاکستان میں رہتے بستے ہیں، ہم زبانوں کو بے لگام آزادی حاصل ہے، منہ پھاڑ کے کچھ بھی کہہ دو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اچھا ایسا نہیں ہے کہ یہ معاملہ عام شہریوں تک محدود ہے بلکہ ہر خاص وعام اور وہ بھی جن کے منصوں کی عزت میں لوگ سر جھکا دیتے ہیں وہ بھی بولنے سے پہلے سوچتے نہیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
این اے 75ڈسکہ سے نون لیگ جیت گئی، پی ڈی ایم میں (جب یہ زندہ تھی) نون لیگ اور جے یو آئی نے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ پر مشاورت کی، پی پی پی اور اے این پی کا مؤقف تھا، ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ان میں حصہ لیا جائے، اس سے اپوزیشن کی عوامی تحریک کو فائدہ پہنچے گا۔ یاد کیجئے نون لیگ 2008ء میں اے پی ڈی ایم نامی اتحاد میں شامل تھی، اس اتحاد نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف زرداری اور پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو قائل کیا کہ بائیکاٹ مسئلہ کا حل نہیں، انتخابات میں حصہ لیں۔ میاں نواز شریف نے مشورہ مان لیا اور انتخابات میں شریک ہوئے، پی ڈی ایم میں بھی بائیکاٹ کی بجائے انتخابی عمل میں شرکت کا مشورہ مان لیا گیا، دونوں بار فائدے میں نون لیگ ہی رہی، یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہم جیسے طالب علم یہ کہتے ہیں کہ ایم آر ڈی کو 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ایم آر ڈی کی جماعتیں اگر ان انتخابات میں متحد ہو کر اس وقت کے قوانین کے تحت بھی شرکت کرتیں تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ حرف آخر یہ ہے کہ ڈسکہ کا ضمنی الیکشن نون لیگ کا ہی تھا یہ نشست نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی کی وفات پر خالی ہوئی، مرحوم کی صاحبزادی ہی نون لیگ کی اُمیدوار تھیں۔ ہمدری، مہنگائی اور دوسرے مسائل اور میاں نواز شریف کا موقف تینوں ملکر کامیاب ہوئے۔ پتہ نہیں کس برتے پر عثمان ڈار نے وزیراعظم کے سامنے بڑھک ماری تھی کہ یہ نشست تو ہم گھر بیٹھ کر بھی جیت سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں