3 371

خطے کے بدلتے حالات اور پاکستان

دنیا میں ایران اپنی نوعیت کا منفرد ملک ہے، 1979ء کے انقلاب سے پہلے بھی اس کی ایک الگ حیثیت تھی۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا ایک مضبوط اتحادی کی حیثیت سے اس علاقے کا تھانیدار کہلاتا تھا۔ اس نے ایران کے ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا جشن منانے کیلئے دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کو دعوت دی تھی اور اس جشن پر لاکھوں ڈالر لنڈھائے تھے لیکن امام خمینی کے انقلاب کے بعد یہ ایک نئے شان وانداز سے دنیا کے سامنے آیا۔ قدامت پرست شیعہ انقلاب نے مشرق وسطیٰ پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ عراق کیساتھ دس برسوں پر محیط جنگ نے اگرچہ ایران کو اقتصادی لحاظ سے بہت نقصان پہنچایا اور لاکھوں ایرانی افواج اور سویلین اس جنگ میں کام آئے، لیکن ایران کے انقلاب نے اس عظیم دھچکے اور صدمے کو برداشت کر کے اپنے آپ کو خوب مستحکم کیا۔ اس کے بعد بھی ایران نے بہت نشیب وفراز دیکھے لیکن اس کے انقلاب کا نشہ بڑھتا ہی گیا۔
اس دوران امریکہ کیساتھ ایران کے بہت بڑے اختلافات سامنے آئے اور لوگ صبح یا شام ایران پر امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے حملے کا انتظار کرنے لگے تھے لیکن وہ دن اور آج کا دن، امریکہ نے اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران اور اہل ایران کا حال بہت پتلا کیا۔ لیکن آفرین ہو ایرانی قوم پر کہ اس تنگ وترش حالات کو بھی برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ امریکہ میں اقتدار کا پلڑا تبدیل ہوا۔ اس دوران چین کیساتھ ملکر ایران نے بڑا انقلابی قدم اُٹھایا اور چین نے بھی مشرقی وسطیٰ میں گیم چینجر راؤنڈ کھیلتے ہوئے امریکہ کی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایران کیساتھ چار سو بلین ڈالر کا معاہدہ کر کے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ چین نے ایران کے اس معاہدے کے ذریعے ایک طرف پچیس سال تک ایرانی پیٹرول کی درآمد کی صورت میں ملک کیلئے ایندھن کی فراہمی کا سستا انتظام کیا اور دوسری طرف ایران کو چینی سی پیک کا اہم ایکٹر کے طور پر شامل کیا۔ اب کھیل بہت دلچسپ لیکن خطرناک بنتا جارہا ہے کیونکہ امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی حکومت نے ایران کیساتھ ٹرمپ کے دور کے ایٹمی معاہدہ پر دوبارہ مذاکرات شروع کئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو ایران سے امریکی پابندیاں ختم ہوجانے کی اُمید پیدا ہوجائے گی۔ پوری طرح ختم نہ بھی ہوئیں تو نرم ضرور پڑ جائے گی۔ اس کیساتھ ہی امریکہ، ایران اور سعودی عرب دونوں پر دباؤ بڑھا کر یمن اور شام کی خانہ جنگیوں کو بھی ختم کروانا چاہے گا، جس میں سعودی ایران پراکسی کے سبب انسانی جانوں کے اتلاف کے علاوہ انسانیت سوز واقعات برپا ہوتے رہے ہیں لیکن اس مثبت پہلو کے علاوہ پاکستان کیلئے خارجہ پالیسی کے میدان میں گزشتہ دو برسوں سے سخت ترین ابتلا وامتحان کا دور رہا ہے۔
پاکستان کو ہمیشہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کے حوالے سے تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف رہا ہے، سعودی عرب سے پاکستان کو اپنے لاکھوں لیبر فورس اور کچھ اقتصادی تعاون کی اُمید کے سبب ہمیشہ جھکنا پڑا ہے لیکن یمن کی جنگ میں پاکستان کی نیوٹرل پوزیشن اختیار کرنے پر سعودی عرب اور امارات نے اپنی روایتی بادشاہتوں کے تیور پاکستان کو دکھائے ہیں لیکن یہ اللہ کی بہت بڑی شان ہے کہ پاکستان کی سٹریٹجک اہمیت کے سبب اب دونوں عرب ملک دوبارہ متوجہ ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اس میں بالواسطہ طور پر امریکہ کا بھی کردار ہے کہ بائیڈن نے ایم ٹی ایس کی طرف توجہ کم کر کے اُسے اپنے پاکستان جیسے مخلص دوستوں کی یاد دلا دی ہے۔ دوسری طرف ایران نے ہمیشہ پاکستان کی مجبوریوں کا استحصال کیا ہے۔ پاکستان نے مجبوری کے تحت ذرا سا سعودی عرب کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی تو ایران نے انڈیا کے واری صدقے ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ یہاں چاہ بہار کو انڈیا کے حوالے کرنے اور وہاں سے کلبھوشن یادیو برآمد کرانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
پاکستان نے بہت واضح انداز میں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا اعلان کیا ہے، اُس میں حقیقت یہ ہے کہ پہلی دفعہ ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر اور علاقائی صورتحال کے تقاضوں کے پیش نظر بڑی برجستہ تبدیلیاں کی ہیں۔ روس کے وزیرخارجہ کا بڑی لمبی مدت کے بعد پاکستان کا دو روزہ دورہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چین، پاکستان، ایران اور ترکی کا سی پیک میں ایک لائن میں آنا اس خطے میں بہت بڑے انقلاب کی نوید ہے لیکن دوسری طرف امریکہ، جاپان، بھارت اور مشرقی وسطیٰ کے عرب ممالک کا دوسرے کنارے پر ہونا پھر پاکستان کیلئے ایک دریا کے پار اُترنے پر دوسرے دریا کا سامنا کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ، بھارت کو پاکستان کیساتھ تعلقات کی بحالی پر متوجہ کر چکا ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے بغیر یہ سب سطحی باتیں ہوں گی، اس کا بہترین حل اعتدال کی راہ پر چلنا ہے کہ فرمان نبویۖ بھی یہی ہے کہ ”بہترین امور میانہ روی کے ہیں”۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس