4 354

تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو پر عمل؟

پی ٹی آئی کی حکومت کا سفر ایک بحران کے بعد دوسرے بحران سے عبارت ہے۔ ان میں سے زیادہ تر چیلنج حکومت کے اپنے پیدا کردہ ہی رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں ایک طرف پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کو ترین کا اہم ترین چیلنج درپیش ہے۔جہانگیر ترین نے30ممبران اسمبلی کیساتھ اپنی سیاسی طاقت دکھا دی ہے۔ حکومتی کیمپ البتہ اس پر بیک فٹ پر بھی ہے اور کنفیوزڈ بھی جو بذات خود اس خطرے کی سنگینی کی عکاسی کرتا ہے۔ترین فیکٹر کے یہاں تک پہنچنے میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ان میں سب سے بڑا کردار حکومت میں موجود سیاسی اور غیرسیاسی کیمپس میں خلیج کا ہے۔ یہ خلیج جہانگیر ترین کی ہی وجہ سے سامنے آئی اور اب غیرسیاسی کیمپ ہی ان کو بطور شوگر مافیا فریم کررہا ہے اور کارروائی کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ اس دوران حکومت کے ان ترجمان وزرا کی خاموشی بھی قابل توجہ بلکہ معنی خیز ہے جو ویسے تو دن میں کئی پریس کانفرنسیں کرتے ہیں مگر اس موضوع کے قریب بھی نہیں آرہے۔ ورنہ حکومتی کارروائیوں کا کریڈٹ لینا تو بنتا ہی ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ خاموش گروپ کیا ترین سے حمایت میں چپ ہے یا تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو پر عمل کر رہا ہے۔ دوسری طرف ترین کا حمایتی گروپ فی الحال 22ایم پی ایز اور آٹھ ایم این ایز کو ملا کر روایتی اور زیادہ تر دیہی سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ یہ گمان کرنا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کے باقی ابھی تک سامنے نہ آنے والے الیکٹیبلز کی ہمدردیاں کس کیساتھ ہوں گی۔ کیا وہ ہمدردیاں ہی رکھیں گے یا مزید کھل کر سامنے آئیں گے، اس کا فیصلہ ابھی کچھ وقت تک نظر آئے گا۔ترین گروپ کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بھی چہ مگوئیاں اور پیشن گوئیاں عروج پر ہیں۔ پیپلز پارٹی اور جہانگیر ترین کے آپس میں رابطے زبان زدعام ہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف کی طرف سے بھی پیغامات کی خبریں گرم ہیں۔یاد رہے کہ جہانگیر ترین شوگر ملز کیس کے مقدمے میں بدھ کو لاہور کے بینکنگ کورٹ میں ضمانت میں توسیع کیلئے پیش ہوئے تھے جہاں عدالت نے ان کی اور ان کے بیٹے علی ترین کی ضمانت میں توسیع کر دی تھی۔ بینکنگ کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کیخلاف جو انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ اسے بے نقاب کیا جائے۔ ہم تو تحریک انصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ میں تو دوست تھا۔ مجھے دشمنی کی طرف کیوں دھکیل رہے ہو؟ میں تو دوست تھا، دوست ہی رکھو۔غور کرنے کی بات ہے کہ اگر 30ممبران اتنا سیاسی رِسک لے رہے ہیں کہ اپنی ہی حکومتی پالیسی کیخلاف کھلم کھلا ترین کیساتھ کھڑے ہو گئے ہیں تو کیا وہ مسقبل کے سیاسی فیصلوں کے وقت ساتھ نہیں دیں گے؟ اور اگر 30کو ہی گروپ کی کم ازکم تعداد شمار کیا جائے تو یہ گروپ اپنے وزن میں ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی(باپ) سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔پنجاب میں عرصے سے تیسری قوت کی نوید اور کوشش جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب سے عملی خاتمے کے بعد ق لیگ نے اپنے قدم دوبارہ جمانے کی کوشش کی ہے مگر اس میں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف ترین کے حامیوں کو اگر دھڑا تصور کیا جائے تو وہ ابھی بھی ق لیگ سے تعداد میں زیادہ ہے۔ غور کرنے کی یہ بھی بات ہے کہ اگر معاملات آگے بڑھے تو ترین کیلئے پیپلز پارٹی یا ن لیگ میں شامل ہونے سے بہتر اپنے آپ کو بطور علیحدہ اکائی رکھنا ہوگا۔ یہ گروپ حکومت میں شامل ہونے یا اس کے قیام میں کسی بھی سطح کی بارگینگ کر سکتا ہے۔پی ٹی آئی کا یہ اہم ترین سیاسی چیلنج ابھی ابتدائی سطح پر ہے۔ جہانگیر ترین کا فوری مقصد کیسز میں ریلیف حاصل کرنا ہے۔ اگر اس پریشر کے نتیجے میں کوئی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی اور کیسز میں ریلیف سامنے آیا تو اس سے سیاسی میدان میں تو بچت ہوگی البتہ احتساب کے بیانئے کو جھٹکا ضرور لگے گا۔ دوسرے آپشن کے طور پر اگر ترین گروپ نے کیسز کے علاوہ مزید سیاسی حصہ مانگا تو اس کے نتیجے میں پنجاب میں کسی بھی سطح پر تبدیلی کا امکان ہے۔ تیسرے آپشن کے طور پر ترین باوجود اس کے کہ نااہل ہیں مگر پھر بھی اپنے آپ کو علیحدہ سیاسی قوت کے طور پر بھی پیش کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ صرف اپنے خلاف کارروائی تک ہی محدود رہتے ہیں یا پھر اپنی سیاسی اننگز دوبارہ اپنی ٹیم کے کپتان کے طور پر شروع کرتے ہیں؟ اگلے کچھ ہفتے اس کیلئے اہم ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند