5 364

مشاہدہ حق

چند روز پہلے جرمنی میں زیرِتعلیم رمیض نامی میرے ایک پرانے شاگرد نے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اپنی ایک تصویر فیس بک پر شیئر کی۔ تصویر میں ایک صاف شفاف جھیل کے کنارے کسی سبزہ زار کا منظر نمایاں تھا، جس کے بیچوں بیچ زندگی کا حسن وجمال سمیٹے ہنستے مسکراتے نوجوانوں کے جھرمٹ میں میرا شاگرد ہشاش بشاش، چست اور توانا دکھائی دیتا تھا۔ تصویر میں دکھنے والے باقی نوجوان اپنی ہیئت اور وضع قطع سے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے، جن میں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی شامل تھے۔ میں نے تصویر کو انتہائی رغبت سے دیکھا اور پھر تھوڑے توقف کے بعد اپنے احساسات کچھ اس طرح قلمبند کئے: ”بہت خوب۔۔ یہ ہے رواداری پر مبنی ایک حقیقی تکثیری معاشرہ، رمیض! یہ تو بتا کہ ہم ہی لوگ جو بیرون ملک جاکے اتنے مہذب اور شائستہ ہوجاتے ہیں، خود اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی جان کے درپے کیوں ہوتے ہیں؟ بیرون ملک ہم قانون کا احترام کرتے ہیں لیکن اپنے ملک اور اپنے معاشرے میں ہم قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں فخر کیوں محسوس کرتے ہیں؟ ہم جو دیارغیر میں دل کا قرار ڈھونڈتے پھرتے ہیں، آخر خود اپنے معاشرے کو جہنم زار کیوں بنائے ہوئے ہیں؟” میرے شاگرد نے بھی کیا سگھڑ مزاج پایا ہے، اس کا مشاہدہ عمیق اور تجزیہ بے لاگ تھا جس میں ہماری قومی زندگی کو سنوارنے کے لاتعداد اسباق پوشیدہ تھے۔ اس نے لکھا: ”جناب! تہذیب وشائستگی کا بڑا گہرا تعلق شعور اور آگہی سے ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں انسانوں کے مابین تہذیبِ نفس کی ایک بڑی وجہ قانون کی صحیح معنوں میں بالادستی اور امیر وغریب کیلئے اس کا یکساں اطلاق ہے۔ قانون کی یہی بالادستی اور اس کا یکساں نفاذ دو اہم ترین عوامل ہیں جو عوام کے اندر احساسِ ذمہ داری، اپنے نظامِ معاشرت سے وابستگی اور شعور کو جنم دیتے ہیں۔” اس کے انداز میں ایک روانی تھی اور الفاظ کا طلسم گویا عملِ پیہم کا تازیانہ تھا۔ اس نے مزید لکھا: ”ہم ایک دوسرے کی جان کے درپے محض اس لئے ہیں کہ ہمارے ہاں معاشرتی اِنصاف مفقود ہے۔ جرمنی سمیت دوسرے مغربی ممالک میں معاشرتی اِنصاف اول وآخر حکومتوں کے ٹھوس عملی اقدامات کا نتیجہ ہے، جن کا محاصل یہ ہے کہ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی ترسیل ممکن بنائی جائے اور انہیں ان کی صلاحیتوں کے موافق استعدادِکار دکھلانے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ یہاں انسان کی تعمیر وترقی کا واحد معیار اس کی ذہانت ہے، نہ کہ اس کا رنگ ونسل یا مذہب۔” مجھے اس کے انداز میں بجلیاں سی کوندتی ہوئی محسوس ہوئیں، اس کے ہاں دریاں کی سی شدت تھی اور وہ اپنی ہی دھن میں سچائی کو کھوجتا چلا جارہا تھا۔ اس نے لکھا: ”جناب! برداشت اور احترامِ آدمیت وہ عوامل ہیں جو کسی قوم کی تعمیر وترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ کے پاس بھلے لاکھ وسائل ہوں لیکن عدمِ برداشت آپ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں خودساختہ مذہبی تاویلات، مکروہات ومباہات، حلت وحرمت اور حتیٰ کہ رد وکد اور تکفیر کے گرداب ہیں جن سے باہر انسانی سوچ کے پروان چڑھنے کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔ ہم معاشرتی گھٹن کے ماحول میں زندہ ہیں جبکہ ہمارے ہاں ریاست وحکومت ناپید ہیں۔ ہمارے ہاں ہر شخص اپنے قانون کا خود آپ ہی خالق ہے جسے نہ ماننے کا نتیجہ عدمِ برداشت ہے، جس نے اندر ہی اندر ہمارے معاشرے کو گھائل کر ڈالا ہے۔” یہ جنوں کی حکایت ابھی جاری تھی، اس نے مزید لکھا: ”ہمارا مخصوص مذہبی اور معاشرتی خول ہی ہر جگہ ہماری پہچان بن چکا ہے۔ میرے دوست مجھ سے اکثر اِسلام سے متعلق چبھتے ہوئے سوال کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ کمزور طبقوں، بالخصوص عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پاسداری کیوں نہیں کرتے؟ آپ کے ہاں جنون اور عدم رواداری عام ہے۔ کیا آپ کا دین آپ کو یہ سب سکھلاتا ہے؟ ان کے سوالات میں اکثر غیرمنطقی انداز بھی جھلکتا ہے۔ وہ اِسلام میں چند ایک چوپاؤں کی حلت اور پھر ایک جانور ہوتے ہوئے سر کی حرمت پر اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں۔ میں اکثر انہیں جواب دیتے ہوئے بہت نرمی سے بات کرتا ہوں اور اپنی اِس حالت میں خود کو پرسکون پاتا ہوں۔” اس کے تاثرات اپنے منطقی نتائج کی طرف بڑھ رہے تھے، اپنے آخری الفاظ جو اس نے لکھے کچھ اِس طرح تھے: ”جناب! یہ سارے سوالات ہوتے ہیں اور میں کوشش کرتا ہوں کہ مسکراتے چہرے کیساتھ جواب دوں اور یقین کیجئے میرے غیرمسلم دوست مجھے سن کر کچھ مانتے ہیں اور کچھ نہیں، لیکن نہ مجھ پر وہ اپنی رائے مسلط کرتے ہیں اور نہ میں ان پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔میں نے سوچا آخر دنیا میں ایسا تو ممکن نہیں کہ ہم ہر دوسرے شخص کو اپنے مسلک، طریقے اور رائے سے متفق کر سکیں۔ انسانوں کے مابین اختلافِ رائے فطری ہے۔ فطرت کو بدلنے کی بجائے کیوں نہ ہم اپنے معاشرے میں قانون کی بالادستی، ریاست کی عملداری اور معاشرتی انصاف کو رواج دیں تاکہ ہمارے ہاں شدت پسندی اور جنون کا خاتمہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی