4 358

ہماری ڈائری کا ایک ورق

اکثر طالب علم ہمیں فون کرکے کہتے ہیں کہ انہیں کالم نگار بننے کا بہت شوق ہے اور وہ اخبار میں کالم لکھنا چاہتے ہیں، ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو اچھی بات ہے کیا کبھی آپ نے کچھ لکھا ہے؟ تو ان کا عمومی جواب یہی ہوتا ہے کہ جب اخبار والے ہمارا کالم چھاپنے کی حامی بھر لیں تو پھر ہم بطور نمونہ چند کالم ضرور لکھیں گے۔ ہمارا ان سے دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس کالم نگار کو شوق سے پڑھتے ہیں؟ آپ ہمیں اپنے چند پسندیدہ کالم نگاروں کے نام بتائیں؟ بہت سے تو ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے سوال سن کر خاموش ہوجاتے ہیں جب ہم کرید کر اور گھما پھرا کر پوچھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے کبھی یہ روگ پالا ہی نہیں، اگر کوئی ایک آدھ کالم نگار کا نام بتا بھی دے لیکن اس نے اسے پڑھا نہیں ہوتا! اب آپ خود انصاف کیجئے جب آپ کچھ پڑھتے نہیں ہیں، آپ کا سارا وقت سیل فون کھا جاتا ہے تو پھر آپ کیسے لکھیں گے؟ بچپن میں بزرگ ہمیں روزنامچہ لکھنے کو کہتے تھے، ہمیں کہا جاتا کہ دن بھر کے واقعات رات کو سونے سے پہلے لکھ لیا کرو، یقینا وہ یہی چاہتے تھے کہ ہمیں لکھنا آجائے ہم اپنی بات لکھ کر بیان کرنا سیکھ جائیں، ہم بھی دن بھر کی اوٹ پٹانگ قسم کی مصروفیات لکھ ڈالتے، اب جیسے ہم تھے ویسی ہی ہماری مصروفیات بھی تھیں۔ ہم پورے خلوص سے سب کچھ صاف صاف لکھ ڈالتے، اب جب کبھی بچپن کی اس ڈائری کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ہنسی کیساتھ ساتھ سوچ کے بہت سے دریچے کھل جاتے ہیں، ہمارا لکھا ہوا کچھ اس قسم کا ہوتا تھا ”آج میں نے فٹ بال کے گراؤنڈ میں فلاں لڑکے سے جھگڑا کیا اور دوران تکرار گالیاں بھی دیں، میں نے بہت کوشش کی کہ آج جھوٹ بالکل نہیں بولوں گا اور کسی کو گالی بھی نہیں دوں گا لیکن جھوٹ بھی بولا اور گالیاں بھی دیں” اب سوچتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈائری لکھنا ایک خود احتسابی کا عمل تھا جس سے آہستہ آہستہ یہ احساس پیدا ہوتا چلا جارہا تھا کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے، اسی طرح کسی کو گالیاں دینا اخلاق سے گری ہوئی بات ہے، اگر کسی محفل میں اپنی تعریف کی ہوتی تو رات کو سونے سے پہلے یہ بھی لکھ ڈالتا کہ آج میں نے فلاں محفل میں بہت سی ڈھینگیں ماریں اور اپنی خوب تعریف کی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ چلتا رہا اور غیرمحسوس طریقے سے قلم بھی رواں ہوتا گیا اور کسی حد تک اپنی اصلاح کا موقع بھی ملا، کچھ ناپسندیدہ عادتوں سے چھٹکارا بھی ملا! کل کتابیں درست کرتے ہوئے چند برس پرانی ڈائری ہاتھ لگی تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، ورق گردانی کی تو ایک صفحے پر آکر نظریں رک گئیں تاریخ تھی 5نومبر2007 صفحے کے اوپر لکھا ہوا تھا ”القول العزیز” ارشادات ومکتوبات مفتی شاہ محمد حسن مرتبہ مولوی عزیز الرحمٰن ایبٹ آباد1967! نیچے بہت سے اقوال درج تھے، سوچا رمضان المبارک کا با برکت مہینہ ہے ہمارے قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد گھروں میں مقید ہے ان اقوال کو پڑھ کر فکر کے کچھ نئے در تو ضرور وا ہوں گے۔ ہمار ا یہ خیال ہے کہ لکھا ہوا کبھی بھی ضائع نہیں ہوتا۔ ”تواضع اور پستی انسان کیلئے بڑی سعادت ہے اور عجب کبر ونخوت وغرور انسان کیلئے سم قاتل اور سب سے زیادہ مہلک ہے۔ حکمت کے معنی استنباط کرنے کے ہیں یعنی بات سے بات نکالنا، مال کو ضائع نہ کرو یہ قیمتی چیز ہے بخل اگرچہ بری چیز ہے مگر اسراف اس سے بھی زیادہ برا ہے۔ جس وقت کوئی مرتا ہے وہی وقت اس کیلئے مناسب ہوتا ہے اس میں تکوینی مصلحتیں ہوتی ہیں نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے۔ توبہ کے بھروسہ پر گناہ کرنا سخت غلطی ہے نفس کو اگر گناہ کی چاٹ لگ جائے تو پھر اسے روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بے کار اور لایعنی بولنے سے قلب میں تاریکی پیدا ہوتی ہے۔ زمین پر ہر جگہ صابن ہو اور اوپر سے بارش بھی ہورہی ہو تو پھسلنا ضرور ہوگا یہی حالت آج کل فتنوں کی ہے جو شخص خود اپنی اصلاح کا قصد نہ رکھے پیغمبر بھی اس کی اصلاح نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی کسی سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ تم وظیفہ پڑھتے ہو یا نہیں؟ مگر یہ ضرور پوچھتے کہ تم نے کسی کو تکلیف تو نہیں دی؟ کسی کا حق تو نہیں مارا؟ پھر وہ کہتے کہ ہم انسان بنانا چاہتے ہیں اور انسان وہی ہے جس سے کسی کی ذات کو تکلیف نہ پہنچے۔ پریشانی کا علاج فکر آخرت ہے یہ وہ اژدھا ہے جو سب پریشانیوں کو نگل جاتا ہے۔
(باقی صفحہ 7)

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!