mushtaq shabab 37

رسم دنیااور عید کارڈز کی روایت

سید شوکت واسطی مرحوم نے کیا خوب کہا تھا کہ
شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزرگیا
ہماری بلکہ سب کی صورت حال ایسی ہی ہوجاتی ہے اور زمانہ دبے پائوں اپنی یادیں چھوڑکر خاموشی سے گزر جاتا ہے کیونکہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا،اب یہی دیکھ لیں کہ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے یارلوگوں نے وہ جو کبھی عید،بقر عید پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کیلئے عید کارڈوں کا سہارا لیا کرتے تھے انہوں نے جمعة المبارک ،سالگرہ یہاں تک کہ چاند رات کی مناسبت سے مبارکبادوں کے پیغامات کو ایک ہی کلک کے ذریعے ایک ہی وقت میں پورے پورے گورپس کو پہنچانا شروع کر دیا ہے یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی،رنگ بھی چوکھا آئے ،نہ بازار جانے کی ضرورت،نہ خوبصورت کارڈز کی تلاش اور نہ ہی کارڈز خریدنے کی زحمت کے ساتھ ساتھ پوسٹ آفس سے مطلوبہ رقم کے ٹکٹ طلب کرنے کی جھنجٹ،وقت کی بچت الگ،ورنہ جب ہمارا لڑکپن اور پھر جوانی کا دور تھا تو اپنے دوست پیاروں کو عید کے موقع پر خوبصورت کارڈز بھیجنا ایک الگ سے مسئلہ ہوا کرتا تھا،تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ سال میں صرف دو بلکہ زیادہ تر عید الفطر کے موقع پر ہی ہوتا تھا اور عیدالاضحیٰ پر کم کم ہی لوگ عید کارڈز ایک دوسرے کو بھیجا کرتے تھے،بازار جاکر اپنی پسند کے کارڈز تلاش کرنا ایک الگ سی مشکل میں ڈال دیا کرتا کیونکہ خوبصورت ،دیدہ زیب اور نفاست کے حامل کارڈز ہر دکان پر نہیں ملا کرتے تھے،ہاں ایسے کارڈز کی بھر مار ہوا کرتی تھی جن سے”عاشقان نامراد”کی تشفی کا سامان ہوا کرتا تھا اور جن پر نہایت دلسوز قسم کے اشعار بھی چھپے ہوتے ،جیسے کہ
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
اس شعر کو ایک پاکستانی فلم کیلئے ایک گانے میں ذرا سا قابل قبول بنا کر یوں ڈھالا گیا جو بہت مشہور ہوا،یہ گانا غالباً(یقین سے نہیں کہہ سکتا)ندیم اور زیبا پر فلمایا گیا تھا اور پہلے مصرعہ میں یوں تبدیلی کی گئی تھی کہ
عید کا دن ہے گلے ہنس کر لگا لو مجھ کو
دوسرا مصرعہ جوں کا توں رکھا گیا ہے،مزید یہ کہ اس قسم کے کارڈز پر دل جلے شعروں کے ساتھ ساتھ مہندی بھرے ہاتھوں ،بعض پر چلمن سے لگی پردہ نشینوں کی فرضی تصویروں وغیرہ کی بھر مار ہوا کرتی تھی اور من چلے ایسے کارڈز خرید کر دل پشوری کرلیا کرتے تھے،جبکہ سنجیدہ فکر افراد سادگی وپرکاری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خوبصورت اور دیدہ زیب عید کارڈز کی تلاش میں رہتے تھے حالانکہ ان کی قیمت نسبتاً زیادہ بھی ہوتی تھی مگر ایسے لوگ معیار پر سمجھوتہ کرنے کو ہر گز تیار نہ ہوتے،ہمیں یاد ہے کہ شہر کے بعض عید کارڈز فروش اخبارات میں اشتہارات تک چھپواتے کہ تیس یا اس سے زیادہ کارڈز خریدنے پر بھیجنے والے کا نام بھی چھپوایا جائے گا اس”سکیم”سے فائدہ اٹھانے والے اکثر وہ لوگ ہوتے جو ”کاروباری”نکتہ نظر سے کام لیتے ہوئے یعنی دوستوں کے ساتھ ساتھ ”سرکاری اعلیٰ عہدید ا روں”کو بھی زیادہ سے زیادہ کارڈز بھیجنے سے خوش کرنا چاہتے ،بعد میں ایسے لوگوں کا”حلقہ احباب”وسیع ہونے لگا تو یہ لوگ کسی پریس سے اپنی پسند کے سینکڑوں کارڈز چھپوانے کو زیادہ بہتر خیال کرنے لگے۔تاہم یہ تو گنتی کے چند لوگ ہی کرسکتے تھے جبکہ دوچار سے دس بیس کارڈز والے عموماً بازار سے ہی اپنی پسند کے کارڈز چن کر مطلوبہ افراد کو بھیج کر دلی سکون حاصل کر لیتے کیونکہ دورپار کے عزیزوں رشتہ داروں کو عید کے موقع پر یاد کرنا ایک رسم ہی نہیں ایک روایت بھی تھی،پھر جن کی بہن بیٹی کسی دورشہر میں بیاہی گئی ہوتی ان کو نہ صرف عید کارڈز بھیجنا ایک عجب خوشی،سکون اور طمانیت کا باعث بنتا بلکہ پردیس میں مقیم ان بہنوں بیٹیوں کو بھی اپنے میکے سے عید کارڈز ملنے کے حوالے سے جو بے چینی رہتی اسے الفاظ کا جامہ پہنانا اتنا آسان بھی نہیں ہے،یعنی مشکل اگر نہیں ہے تو آسان بھی نہیں اور جب ایسے گھرانوں میں عید کارڈز پہنچتے تو سب کے چہروں پر طمانیت کی جو کیفیت طاری ہوتی وہ بیان سے باہر ہے وہ بچیاں عید کارڈز کو بار بار دیکھ کر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی قربت کے احساس سے سرشار ہو جاتیں،انہیں اپنوں کی خوشبو ایسے ہی محسوس ہوتی گویا ملنے والا بے جان کارڈ ،گتے کا ایک ٹکڑا نہیں،اپنوں کے لمس میں لپٹا ہوا احساس ہے یعنی بقول مرحوم سجاد بابر
کرن بھی اترے تو آہٹ سنائی دیتی ہے
میں کیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے
عید کارڈز کی روایت نے کہاں سے جنم لیا؟اس حوالے سے تھوڑی سی تحقیق کی ضرورت ہے ممکن ہے اس کی ابتداء بھی مغرب سے ہوئی ہو اگرچہ مختلف قوموں میں خوشی کے مواقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا اپنا اپنا انداز ہو،یعنی جب ہم بر صغیر کے معاشروں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں اسلام کی آمد سے پہلے ہندوئوں، بدھوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی خوشی کے مواقع پر”بدھائی”کے حوالے سے اپنی روایات موجود ہوں گی جیسے کہ دیوالی،ہولی وغیرہ اسی طرح اسلام پھیلنے کے بعد عید بطور تہوار منانے کی رسم چلی تو ایک دوسرے کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی ان روایات کا آغاز ہوا ہوگا جو عید کے حوالے سے دیگر اسلامی ممالک میں موجود تھیں کہ عید ین تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں،یعنی عید الفطر رمضان کے روزوں کا انعام اور عید الاضحیٰ حضرت ابراہیم کی ذبح عظیم کی یاد میں منائی جاتی ہے،بہرحال اس حوالے سے مزید بات اگلے کالم میں کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا