logo 73

وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر تبدیلی

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں رد وبدل کردیا ۔ ماہر معاشیات شوکت ترین کو نیا وزیر خزانہ بنایا گیا ہے ۔ وزیراعظم اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی بھی غیر منتخب شخص کو6ماہ کے لیے وزیر مقرر کرسکتے ہیں اور انہی اختیارات کے تحت شوکت ترین کو وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔حفیظ شیخ کے بعد وزیر خزانہ کے اہم ترین عہدے کیلئے یہ موجودہ حکومت کا دوسرا تجربہ ہے۔ مجموعی طور پر6وزرا کے قلم دان تبدیل کیے گئے ہیں۔ چند روز قبل وزارت خزانہ کا اضافی قلم دان حماد اظہرکو سونپا گیا تھا، جبکہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کو ایک بار پھر اطلاعات و نشریات کی وزارت کا قلم دان دے دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی دو سال اور 8 ماہ کی حکومت میں اسد عمر، حفیظ شیخ اور حماد اظہر کے بعد شوکت ترین چوتھے وزیر ہیں جنہیں خزانہ کا قلم دان سونپا گیا ہے۔ شوکت ترین اس سے قبل بھی وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ وہ2008سے2010تک یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر خزانہ رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دیں جبکہ 2009میں سندھ سے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد انہیں وفاقی وزیر خزانہ کا قلم دان سونپ دیا گیا تھا۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم میں تبدیلیوں کے بعد شوکت ترین کو وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کیا تھا۔شوکت ترین پر سابق دور میں خزانہ کی وزارت ملنے پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ وہ بنیادی طور پر بینکر ہے جس کی معیشت اور معاشی امورپر دسترس کمزور ہے لیکن بہرحال وہ خزانہ کی وزارت کے معاملات سے واقف ضرور ہیں البتہ ان کی ایک شہرت یہ ضرور ہے کہ ان کو سلک بینک کے حصص بڑھانے پر مفادات کے ٹکرائو کی بنا پر2010ء میں وفاقی کابینہ سے مستعفیٰ ہونا پڑا تھا وزارت داخلہ کا قلمدان تحریک انصاف سے باہر کی کسی شخصیت کو سونپنے کے بعد خزانہ کی اہم وزارت کی سپردگی میں اس کا اعادہ اور صوبائی سطح پر بھی تحریک انصاف سے باہر کی شخصیات کو کھپانے کا سلسلہ پارٹی کے اندر کس حد تک تنقید اور دبائو کا باعث بن سکتا ہے اس سے قطع نظر اس امر کی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے منتخبین حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کیلئے اس طرح سے سرگرم ہوں گے جس کی پارٹی کے ایک مخلص عہدیدار سے توقع رکھی جا سکتی ہے شوکت ترین کے پیشروحفیظ شیخ پر بھی یہی اعتراض تھا اور آج جواب دہی حکومت سے ہورہی ہے تو حفیظ شیخ کہیں نظر نہیں آئے حفیظ شیخ کا تعلق اگر سیاست اور تحریک انصاف سے ہوتا تو آج اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے دفاع کیلئے وہ خود موجودہوتے علاوہ ازیں کابینہ میں چھٹی تبدیلی اور چار وزرائے خزانہ کا آزمایا جانا بھی کچھ اچھے تاثرات کا باعث نہیں وفاقی کابینہ میںپہلی تبدیلی اقتدار کے آٹھویں مہینے میں ہی محسوس کی گئی اس بار تین ہفتے بعد ہی وزیر خزانہ تبدیل کر دیئے گئے دلچسپ امر یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات کی ذمہ داریوں سے دو سال قبل سبکدوش فواد چودھری کو دوبارہ اسی عہدے پر لایا گیا ہے جو سابقہ فیصلے سے رجوع ہے جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ دوسال قبل کا فیصلہ شاید عجلت میں کیا گیا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ کابینہ میں تبدیلی وزیراعظم کا صوابدید اور اختیار ہے لیکن بار بار کی تبدیلی سے نہ صرف تبدیلی لانے کا وعدہ متاثر ہورہا ہے بلکہ کوئی بھی عہدیدار کسی وزارت میں جم نہیں پاتا اور بیوروکریسی سے ان کی ہم آہنگی نہیں ہوپاتی اس سے ان دعوئوں کی بھی نفی ہوتی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس ماہرین کی ایک بڑی ٹیم موجود ہے جس کا دعویٰ انتخابات سے قبل کیا گیا تھا کہ حکومت ملتے ہی یہ ٹیم عوامی مسائل کے حل اور معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے متحرک ہو جائے گی۔بہرحال اب جبکہ کابینہ کی تشکیل نو ہو چکی اور بعض وزارتوں میں بغیر تبدیل ہوئے وفاقی وزراء مسلسل کام جاری رکھے ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اقدامات نظر آنے چاہئیں جسے عوام اپنے مسائل کے حل اور حقیقی معنوں میں تبدیلی محسوس کریں جہاں تک وزیر خزانہ سے توقعات کا سوال ہے ابھی بجٹ بننے کا آخری مرحلہ ہے ایسے میں بجٹ میں زیادہ ردوبدل کی گنجائش نہیں نیز ملکی معاشی حالات قرضوں اور آئی ایم ایف کے دبائو اور ان سے کئے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کو پورا کرنے کے بعد عوام کو دینے کیلئے حکومت کے پاس کم ہی وسائل رہ جائیں گے صرف اس سال نہیں آئندہ مالی سال انتخابی بجٹ کا سال ہوگا جس میں سیاسی ضرورتیں غالب آنے کا دستور ہے ان سارے معاملات کو کھپاتے ہوئے شوکت ترین کیا بجٹ دے سکیں گے اور کس مہارت سے اعدادوشمار کی بھول بھلیوں میں عوام کو الجھا کر طفل تسلیاں دی جائیں گی وہ بالآخر سامنے آئیں گی ان حالات میں بجٹ کی تیاری میں عوام کی اشک شوئی کا انتظام اور آئی ایم ایف کو خوش رکھنا آگ اور پانی کے ملاپ کے مترادف ہوگا اس دریا کو عبور کئے بغیر چارہ نہیں جس پر پل کمزور وشکستہ اوردریا میں سمندر کی طرح کا جوار بھاٹا ہے۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے