p613 318

مشرقیات

علامہ سعد الدین تفتازانی بہت بڑے عالم گزرے ہیں۔ ان کی کئی کتب اب بھی درس نظامی کا حصہ ہیں۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ابتدا میں بہت کند ذہن تھے’ قاضی عضد الدین کے حلقہ درس میں آپ سے زیادہ غبی کوئی نہ تھا مگر جدوجہد’ سعی و کوشش اور مطالعہ کتب میں سب سے آگے تھے اور برابر لگے رہتے تھے۔ایک مرتبہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ان سے کہہ رہا ہے کہ سعد الدین! چلو سیر و تفریح کر آئیں۔ آپ نے جواب دیا کہ میں سیر و تفریح کے لئے نہیں پیدا کیا گیا میں انتہائی محنت اور مطالعہ کے باوجود کتابیں نہیں سمجھ پاتا’ تفریح کروں گا تو کیا حال ہوگا؟ وہ شخص یہ سن کر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر آیا اور اسی طرح کہا آپ نے پھر انکار کیا’ تیسری مرتبہ وہ پھر آیا اور کہا کہ جناب رسول کریمۖ تمہیں یاد فرما رہے ہیں۔ اس مرتبہ علامہ تفتازانی گھبرا کر اٹھے اور ننگے پائوں چل پڑے۔ شہر کے باہر ایک جگہ کچھ درخت تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضور اکرمۖ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ آپ کو دیکھ کر حضور اکرمۖ نے تبسم آمیز لہجے میں ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو بار بار بلایا تم نہیں آئے۔ آپ نے عرض کیا: حضور! مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ یاد فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی غباوت اور کند ذہنی کی شکایت کی تو حضور اکرمۖ نے فرمایا:”اپنا منہ کھولو” انہوں نے منہ کھولا’ حضور اکرمۖ نے اپنا لعاب دہن مبارک ان کے منہ میں ڈالا اور دعا دے کر فرمایا کہ جائو۔
بیدار ہو کر جب وہ اپنے استاد قاضی عضد الدین کی مجلس میں حاضر ہوئے اور درس شروع ہوا تو اثنائے درس میں تفتازانی نے کئی اشکالات کئے تو ساتھیوں نے خیال کیا کہ یہ سب بے معنی اشکالات ہیں مگر استاد تاڑ گئے اور فرمایا ” سعد آج تم وہ نہیں ہو جو اس سے پہلے تھے” تو انہوں نے واقعہ سنایا۔ تفتازانی جناب نبی کریمۖ کے لعاب دہن مبارک کی برکت سے واقعی بدل چکے تھے۔ ان کی صلاحیت اور استعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوگیا تھا۔ حق تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ارو حضور اکرمۖ کی توجہات علامہ تفتازانی کی محنت’ جدوجہد اور ذوق و شوق کی وجہ سے انہیں حاصل ہوئی تھیں۔٭وہیب بن ورد علیہ الرحمتہ سے روایت ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام تین دن تک اپنے والد محترم حضرت زکریا علیہ السلام سے گم رہے۔ آپ ان کی تلاش میں جنگل کی طرف گئے تو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر کھود رکھی ہے اور اس میں کھڑے ہو کر آہ و بکا میں مصروف ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے فرمایا : بیٹا! میں تین دن سے تیری تلاش میں ہوں اور تو یہاں قبر کھود کر اس میں کھڑا رو رہا ہے؟حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: ابا جان! آپ ہی نے مجھے بتایا تھا کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک طویل فاصلہ ہے جو صرف آنسوئوں کی مدد سے طے ہوسکتا ہے”۔ آپ نے فرمایا : جی ہاں بیٹا! رو لو۔” تب دونوں رو پڑے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے