1 472

سیاست کے پیچ و خم

حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کیا تو چاہئے تھا کہ اس کے کم از کم اس شق پر جلد سے جلد عمل کرتے کہ فرانس کے سفیر کے نکالنے کے معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش کرتی۔ پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق جو بھی عمل اتفاق سے سامنے آتا اس میں ہر لحاظ سے حکومت کی حفاظت ہوتی۔ لیکن ہمارے ہاں دراصل سیاست میں سخت منافقت نے جڑیں یوں مضبوط کی ہیں کہ ہرسیاسی جماعت کے نزدیک ذاتی و جماعتی مفادات کو اولیت دی جاتی ہے ۔ 1971ء کے انتخابات ہماری تاریخ میں اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بھٹو یحییٰ اور مجیب کے درمیان رسہ کشی ذاتی مفادات کے سبب تھی۔ قومی و ملکی مفادات عزیز ہوتا تو ایک فریق ضرور قربانی دے دیتا اور پاکستان کے دو لخت ہونے کا المیہ رونما نہ ہوتا۔
اب اس معاملے کو دیکھئے نا کہ 17-18 میں یہی لبیک والوں کے فیض آباد دھرنا کے درمیان میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی بھی تشریف رکھے ہوئے ہیں۔ کیوں بغض نواز شریف میں۔۔ اور اس وقت ساری سیاسی جماعتیں بالخصوص مذہبی جماعتیں بالخصوص جے یو آئی(ف) اور جماعت اسلامی اور مفتی منیب الرحمان وغیرہ بغض عمران میں ٹی ایل پی کی پشت تھپتھپا رہے ہیں۔ تاکہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو کر عمران حکومت کے خاتمے پر منتج ہو کر رہے ۔ بھلے اس میں حکومت اور ٹی ایل پی دونوں طرف سے قیمتی جانیں اور املاک ضائع ہوتی رہیں۔ ہمارے ہاں تو سیاست کے پیچ و خم نکلتے تب ہیں جب چند لاشیں گرتی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں طاہر القاداری کی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو ماڈل ٹائون میں جس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ اس پر آج تک سیاست جاری ہے اور یہ واقعہ مسلم لیگ(ن) کے لئے طعنے کے طور پر بطور حوالہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اب لبیک کے کارکنوں کی شہادت کو مخالف سیاسی جماعتیں تحریک ا نصاف کے خلاف سیاست اور آئندہ انتخابات میں استعمال کرنے سے گریز نہیں کرینگی حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اپوزیشن کی جماعتیں درمیان میں آکر عمران خان کے لئے نہیں ملک و قوم کی فلاح و بھلائی کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرتیں نہ کہ جلتی پر تیل ڈالنے کا۔موجودہ صورتحال میں بغیر کسی لگی لپٹی کے حقیقت یہ ہے کہ غلطی کی ابتداء حکومت کی طرف سے ہوئی ہے ۔ حکومت نے ایسا معاہدہ کیوں کیا جس کو پورا کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ آج اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ فرانسیسی سفیر کا اخراج یورپی یونین کیساتھ تعلقات کے بگاڑ کے مترادف ہے تو یہ بات بقراط زمان شیخ رشید احمد اور علامہ عصر نور الحق قادری کو اس وقت کیوں نہ سوجھی جب معاہدے پر دستخط ثبت ”فرما” رہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں تو ویسے بھی دستور رہا ہے کہ معاہدیاور وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے ” لہٰذا ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کرکے پھر آج اور کل کرتے ہوئے ڈھیل پہ ڈھیل کے ذریعے معاملے کو طول دیا جائے گا اور یوں رمضان اور عید تک معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ انہوں نے دراصل ٹی ایل پی کی کیمسٹری سمجھنے میں سخت غلطی کی اور اب بھگت رہے ہیں۔
ٹی ایل پی والے بھی اس لحاظ سے زیادتی کر رہے ہیں کہ جب ایک بات حکومت کے بس کی نہیں ہے اور فرانسیسی سفیر کے نکالنے سے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہونے کے خدشات ہیں اس لئے تشدد اور پولیس و رینجرز پر حملہ آور ہونے اور سڑکوں اور شاہراہوں کو بند کرنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے ذریعے دبائو جاری رکھتے تو ملک و قوم اور خود ان کے لئے بہتر ہوتا اور آج یہ نقصان جو بحیثیت مجموعی پاکستان کا نقصان ہے نہ ہوتا ۔ دشمنان اسلام اور سیاست کے ذریعے ذاتی مفادات کے حصول کے رسیا و حریص نگاہیں جمائے ہوئے ہیں کہ کب عمران حکومت اور ٹی ایل پی دشمنوں کی طرح مورچوں میں بیٹھیں گے تاکہ وہ ساری دنیا میں عمران کی نااہلی ونالائقی اور پاکستان کے عدم استحکام کا ڈھول پیٹ سکیں۔
عشق رسولۖ پوری پاکستانی قوم اور حکومت کا مشترکہ ورثہ اور اثاثہ ہے لہٰذا اس قیمتی متاع کی حفاظت کے لئے جو نقصان ہونا تھاہو چکا ۔ مزید سے بچنے کے لئے سب مل بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جس سے ناموس رسالتۖ کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے ۔ جس طرح مغرب والے یورپی یونین کے ذریعے ایک ہوچکے ہیں کیا ستاون مسلمان ممالک ایک ہو کر یواین اور مغرب سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ اگر آئندہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کے خلاف کوئی حرکت ہوئی تو پوری امت بیک وقت تجارتی بائیکاٹ پر عمل کرے گی اور ساتھ ہی جہاں جہاں اور جیسے ممکن ہوا ڈائیلاگ اور مذاکرات اور شعور و آگہی کے ذریعے اس عظیم موضوع پرعلمی و عملی کام کو آگے بڑھایا جائے۔ورنہ حال وہی ہو گا جو صفی لکھنؤی نے بیان کیا تھا:
وہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
یہاں رگ رگ سے کھینچ کھینچ کر ہمارا دم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دم نہ ان کے گیسوئوں کا خم نکلتا ہے

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر