2 476

اورکے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

سائنس وٹیکنالوجی اور دینی حوالوں سے رویت ہلال پر ہمارے ہاں ہر سال اٹھتے سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہے اور اگر بعض علمائے دین رویت ہلال کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہوئے ٹیکنالوجی کو تسلیم نہ کرنے پر بعض اوقات اڑ جاتے ہیں جبکہ اس ضمن میں رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن اور سابق وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی میں بحث سے معاملہ آگے بڑھ کر”جد اور انا”کے دائروں میں داخل رہا،تو اس کی وجوہات جو بھی رہی ہوں،اب وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے نئے وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے اپنے تازہ بیان کے ذریعے اس کا حتمی فیصلہ یہ کہہ کر سنادیا ہے کہ”عیدوروزے کا بتانا وزارت سائنس کا کام نہیں”اس پر اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے،اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنی سی بات جسے مفتی منیب الرحمن بار بار کہتے آئے تھے فواد چوہدری کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی؟اور ہ نہ صرف اپنی بات پر اڑے رہے بلکہ جب تک وہ سائنس وٹیکنالوجی کے وزیر رہے وہ تسلسل کے ساتھ رمضان،عید الفطر عیدالضحیٰ اور محرم کے چاند کے بارے میں پیشگوئیاں کر کر کے مفتی منیب الرحمن کو دق کرتے رہے ،مفتی صاحب بھی مگر اپنی ٹائپ بلکہ وکھری ٹائپ کی الگ شخصیت واقع ہوئے ہیں انہوں نے چوہدری فواد حسین کی اپنی کمیٹی کے معاملات میں ایک نہ چلنے دی اور بضد رہے کہ جب تک انہیں کھلی آنکھ سے چاند دیکھنے کی شہادت خواہ کہیں سے بھی(ماسوائے خیبرپختو نخوا کے)ملے،بے شک وہ فواد چوہدری کی وزارت کے ماتحت اداروں کی پہلے سے بتائی ہوئی تاریخوں کے ساتھ مطابقت ہی پر مبنی کیوں نہ ہوں،وہ ان کے علاوہ کسی شہادت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے،اور غالباً ایک آدھ موقع ایسا بھی آیا کہ محکمہ موسمیات اور عین الیقین والے فلسفے کے مابین بھی سمجھوتہ نہ ہونے کی وجہ سے چاند کا اعلان نہ ہوسکا۔ایسے موقع پر نظیر ساگر کا یہ شعر صورتحال کی وضاحت کیلئے پہلے ہی سے موجود تھا کہ
نوید عید نہ دے مجھ کو آسماں سے اے چاند
کہ میں نے دیکھے ہیں چہرے اداس لوگوں کے
کیونکہ مجموعی طورپر عوام کی اکثریت سائنس وٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت قائم اداروں کی نوید ہلال پر اگلے روز عید کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوتے تھے مگر درمیان میں مفتی صاحب کی انا آڑے آگئی تھی اور عید میں ایک روز کی تاخیر ہوگئی تھی یہ الگ بات ہے کہ پھر دوسری،تیسری اور خصوصاً چودھویں کے چاند پر حقیقت کھل گئی تھی کہ سائنس وٹیکنالوجی والوں کی بات درست تھی،مگر”عین الیقین”کا مسئلہ درپیش ہونے سے بات بنی نہیں۔اس دور کے وزارت سائنس کے وفاقی وزیر فواد چوہدری اور مفتی صاحب کے مابین تعلقات میں اس قدر”کشیدگی”پیدا ہوئی کہ مفتی صاحب نے زچ ہو کر وزیراعظم کو وزیر موصوف کی شکایت بھی لگا دی تھی،تاہم معاملہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال باہر کرنے سے ذرہ برابر آگے نہ بڑھ سکا،کہ بقول شخصے اللہ میاں نے دوکان دیئے ہی اس لئے ہیں کہ ایک سے بات سنی جائے اور دوسرے سے نکال کر حساب برابرکردیا جائے۔لیکن چوہدری صاحب بھی کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے انہوں نے بھی مبینہ طور پر مفتی صاحب کے خلاف”عوامی شکایات”سے ایسا ماحول پیدا کر لیا کہ بالآخر مفتی صاحب کی لگ بھگ18سالہ”آمریت”سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو نجات دلادی،گویا سرکاری طور پر رویت ہلال کے حوالے سے وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے مئوقف کو درست تسلیم کر لیا گیا تھا،مگر اب جبکہ محولہ وزارت کے نئے وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے یہ کہہ کر کہ عید وروزے کا بتانا وزارت سائنس وٹیکنالوجی کا کام نہیں،مفتی صاحب کے عین الیقین والے بیانئے کو تسلیم کرلیا ہے تو مفتی صاحب موصوف بھی توپوچھ سکتے ہیں کہ”مجھے کیوں نکالا؟”اگر چہ ایک حوالے سے سابق وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری کا بیانیہ سابق چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے بیانئے پر یوں غالب آتا رہا کہ بقول فواد چوہدری اگر سائنس وٹیکنالوجی کا رویت ہلال میں کوئی عمل دخل قابل قبول نہیں ہے تو محولہ کمیٹی کے ارکان محکمہ موسمیات کے دور بینوں کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو اہمیت کیوں نہیں دیتے،اکثر ارکان جدید ٹیکنالوجی سے مدد لیتے ہوئے نظر کی عینکوں کا استعمال کیوں کرتے ہیں فون،سیل فون،کمپیوٹرز اور انٹر نیٹ سے مدد کیوں لیتے ہیں؟وغیرہ وغیرہ،سوال تو اپنی جگہ اہم بھی ہے اور سوال اٹھتا بھی ہے ،اس پرارکان کمیٹی میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا،حالانکہ وہ ان سوالوں کو غلط بھی قرار دے سکتے ہیں یعنی بقول منیر نیازی
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
تاہم اب تو شبلی فراز نے ٹنٹا ہی مکادیا ہے یعنی اب رویت ہلال کے معاملے میں وزارت سائنس شاید ہی ٹانگ اڑائے یعنی بقول احمد فراز
اب تو شاید کہ تراذکر غزل میں آئے
اور کے اور ہوئے دردکے عنواں جاناں

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''