3 378

خستہ حال سڑکیں ،پولیس اور معدنیات

اس مرتبہ کم ازکم دو برقی مراسلات ایسے ہیں جن کو زبان وبیان کی معمولی درستگی کیساتھ من وعن شامل کالم کر رہی ہوں، اس اُمید کیساتھ کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ان معروضات کو اپنے شکایات سیل میں موصولہ شکایات کا درجہ دیکر ان پر توجہ دیں گے۔ ایک تو عام اور عوامی مسئلہ ہے، بنوں سے اکرم خان درانی وزیراعلیٰ رہے ہیں اور بنوں پر وسائل خرچ کرنے کا بڑا شہرہ سنا تھا مگر ذیل کی شکایت پھر بھی ہے۔ علاوہ ازیں ہر دور حکومت میں صوبائی کابینہ، وفاقی کابینہ، صوبائی اسمبلی وقومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشست پر بنوں کو نمائندگی ملتی رہی ہے۔ کئی اہم شخصیات اور سرکاری عہدیداران بنوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اور گزرے بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کا ایک نظام ہے تعمیراتی اور شہری ادارے ہیں جن کو ہر سال فنڈز ملتے ہیں مگر عوام کے مسائل جوں کے توں کیوں ہیں یہ صرف بنوں کا نہیں پورے صوبے اور پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ برقی پیغام کے آئینے میں تمام متعلقین کو اپنی صورت دیکھنے اور سیرت پر غور کرنے کی گزارش کیساتھ اس برقی پیغام کو مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر پیش کرتی ہوں۔ حکمران، سابق وموجودہ اراکین اسمبلی، سینیٹرز اور سرکاری افسران سبھی کا چہرہ اور پورے صوبے کے نمائندوں وموجودہ وسابق حکمرانوں کا چہرہ وکارکردگی کی جھلک اس برقی پیغام میں ضرور نظر آئے گی، بشرطیکہ چشم بینا ہو وضمیر سویا نہ رہا ہو۔ آپ مختلف موضوعات اور تقریباً معاشرے کے ہر طبقے کے مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، آج ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ سرکار محکمۂ پولیس کے مسائل شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
محکمۂ تعلیم کے بنیادی سکیل 12جبکہ پولیس کے بنیادی سکیل 7میں بھرتی سراسر ناانصافی ہے۔ سخت گرمی اور سردیوں میں پولیس 12سے لیکر 15گھنٹے تک ڈیوٹیاں انجام دیتی ہے، نہ چھٹی کا کوئی باقاعدہ انتظام ہے، نہ ہی ایمرجنسی ڈیوٹی، پولیو مہم اور محرم وغیرہ میں کھانے پینے کا پروگرام، نہ ہی ٹی اے ڈی اے ملتا ہے۔ ہمارے صوبے میں سپاہی بھرتی ہونے پر تنخواہ27000جبکہ پنجاب میں 40000 سے زیادہ ملتے ہیں۔ اس فرق کو ختم ہونا چاہئے جلسہ جلوس میں پولیس ایم این ایز کی سیکورٹی پر پولیس مامور، نمازجمعہ، عیدین، بازاروں چوک چوراہوں، مجرمان جرائم پیشہ، قانون شکن افراد کی گرفتاری پولیس کرتی ہے۔ ہر وقت سینے پر گولی کھانے کیلئے پولیس آگے ہوتی ہے ملک کی خاطر اپنا خون پیش کرتی ہے، پھر بھی پولیس کو ان کا حق نہیں ملتا، دوسری بات یہ کہ افسران کا رویہ ماتحتوں کیساتھ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے، معمولی معمولی باتوں پر ڈانٹنا معطل کرنا، برخاست کرنا، معمول کی بات ہے۔ اکثریت کا یہ خیال ہے کہ پولیس ظالم ہے، پولیس راشی ہے، سارے الزامات شکوہ شکایات وتنقید کی گنجائش ہے اور اس طرح کے تاثرات پوری طرح غلط بھی نہیں، پولیس ٹھیک ہوتی تو معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہی نہیں سدھار بھی ہوتا۔ پولیس کے حوالے سے عوامی تاثرات کی نفی اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ یہ برسوں کے مشاہدات ذاتی تجربات اور پولیس کے کردار وعمل سے اخذ ہوتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً پولیس کے ”کارنامے” بھی سب کے سامنے ہے، اس سب کے باوجود یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ عام پولیس اہلکاروں اور کم گریڈ کے افسروں کے اپنے مسائل نہیں۔ سرکاری محکمے کے ملازمین ہوں اور سرکار سے شکوہ شکایات نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔
سوات سے اس برقی کالم میں نام مخفی رکھنے کی درخواست کیساتھ پیش کردہ یہ معروضات ملاحظہ ہوں، یونس مروت نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کے نمائندے کے طور پر ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کی پرانی فریاد پھر دہرائی ہے، ان مطالبات کو ورکرز ویلفیئر فنڈ اسلام آباد کی گورننگ باڈی میں منظوری دی گئی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں التواء کا شکار ہیں، ان کے مسائل ومطالبات یہ ہیں۔ سروس سٹرکچر، سروس رولز،C.Rفنڈ کو جی پی فنڈ میں تبدیل کیا جائے، جاب سیکورٹی، تمام مؤخر بقایاجات کی ملازمین کو بروقت ادائیگی کی جائے، ٹائم سکیل پروموشن، پروموشن کیلئے ڈی پی سی کا انعقاد کیا جائے، ماہانہ تنخواہوں کی ملازمین کو بروقت ادائیگی کی جائے اور تاخیری حربوں کا مستقبل میں خاتمہ کیا جائے، ملازمین کیلئے سی بی فنڈ کا حصول آسان تر بنایا جائے، صنعتی محنت کشوں اور ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کیلئے صحت کارڈ کا اجراء کیا جائے اور جنوبی اضلاع کے بھٹہ خشت مزدوروں کی رجسٹریشن بطور ورکر کی جائے اور ان کا ورکرز ویلفیئر بورڈ کیساتھ اندراج کیا جائے۔
سابق خیبر ایجنسی اور موجودہ ضلع خیبر سے ایک قاری کی شکایت ہے کہ ضلع بننے کے بعد بھی ایجنسی ہی کے حالات چل رہے ہیں، ان کو سخت شکایات ہیں کہ خیبر ایجنسی کے معدنیات کی لیز اور وسائل کی بندربانٹ پہلے کی طرح اب بھی جاری ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ تمام لیز منسوخ کئے جائیں اور ازسرنو جائزہ لینے کے بعد شفاف انداز میں لیز دئیے جائیں اور یہاں کے وسائل میں مقامی افراد کو بھی حصہ دیا جائے۔
قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 0337-9750639 پر میسج اور واٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد