5 372

غلطی کہاں پرہے؟

لاہور اور ملک بھر کے دیگر شہروں میں جلائو گھیرائو کی جو فضاء قائم ہے اور اس کے نتیجے میں مذہبی جماعت کے کارکناں اور پولیس اہلکاروں کے جاں بحق اور زخمی ہونے کی جو ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں انہیں دیکھ کر ہر پاکستانی دکھی ہے۔
کاش! معاملات کو اس نہج تک پہنچنے سے پہلے ہی سلجھا لیا جاتا۔ کشیدہ حالات کو دیکھ کر اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت کی طرف سے جیسے بڑی غلطی کر دی گئی ہے۔ حالیہ تصادم کا تعلق گزشتہ سال کے اس معاہدے سے ہے جو حکومت اور مذہبی جماعت کے مابین طے پایا تھا’ اس معاہدے کے تحت حکومت نے منظور کیا تھا کہ وہ تین ماہ کے عرصہ کے دوران فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دے گی اور اس معاملے کو ایوان میں زیرِ بحث لا کر درپیش رکاوٹ کو ختم کیا جائے گا۔
جب حکومت کی طرف سے یہ معاہدہ سامنے آیا تو اہل دانش کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ معاہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ‘ مگر حکومت کی طرف سے دیرپا حل کی بجائے وقتی حل تلاش کیا گیا کہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ اب تحریک لبیک نے حکومت کو معاہدے کی پاسداری کی یاد دہانی کرائی تو حکومت نے سفارت کاری کی مجبوریاں بیان کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ وہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاہدے پر عمل نہیںکر سکتی ہے، جس کے بعد حالات خرابی کی طرف چلے گئے۔
اس پس منظر کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا معاہدہ کیوں کیا گیا جسے پورا کرنا ممکن نہ تھا ‘ اور تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتاری میں عجلت بازی کیوںکی گئی اور گرفتاری پر مذہبی جماعت کی طرف سے ممکنہ ردعمل پر پلان بی تیار کیوں نہ کیا گیا’ اسی طرح سیاسی و مذہبی جماعتوںکے رہنمائوں کا تعاون حاصل کر کے مذاکرات کی کوشش کی جانی چاہیے تھی مگر اس طرف توجہ نہ دی گئی ‘ ایسے ہی تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے میں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا’ یہ صورت حال حکومت کی بوکھلاہٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر بھی کیا موقوف ماضی کی ہر حکومت نے مذہبی جماعتوں کو سمجھنے میں غلطی کی ہے، حالانکہ سیاست کے میدان اور ایوانوں میںبڑی تعداد گدی نشینوں کی ہے۔
شاہ محمود قریشی’ مولانا فضل الرحمان ‘ پیر نور الحق قادری اور پیر پگارا جیسے طاقت ور لوگ مذہبی کارڈ استعمال کرکے ہی ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
ارباب اختیار اور لبرل طبقے کی طرف سے مذہبی طبقے کے حوالے سے بالعموم دو طرح کی غلطی کی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ مذہبی طبقے کو جدید علوم سے عاری تصور کیا جاتا ہے ‘ دوسرا یہ کہ انہیں کمزور سمجھ کر ان کی طاقت کا درست اندازہ نہیںلگایا جاتا ہے’ سو ایسی صورت میں مذہبی طبقے میں احساس محرومی جنم لینا ایک فطری امر ہے’ جب جلسے جلوس’ اور دھرنے میںمذہبی لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں تو ان کے اندر پیدا ہونے والا احساس محرومی بیدار ہو کر انتقام میںتبدیل ہو جاتا ہے ‘ اس لیے ضروری ہے کہ مذہبی طبقہ کی قوت کا درست ادراک کر کے ان کی طاقت کو تسلیم کیا جائے اور طاقت کے زور پر انہیں سرنگوں کرنے کی بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ قومی دھارے میںلانے کی کوشش کی جائے۔ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی بھی کسی دور میں جلسے جلوسوں اور احتجاجوںمیں پیش پیش ہوا کرتی تھیں ‘ ان جماعتوں کی طرف سے قومی املاک کو نقصان پہنچانے کی پوری تاریخ موجود ہے جس کی یہاںتفصیل کی ضرورت نہیں، تاہم ضروری ہے کہ جس طرح مذکورہ مذہبی جماعتیں قومی دھارے میں آ کر جلائو گھیرائو اور ملکی املاک کو نقصان پہنچانے والے احتجاجوں سے کنارہ کش ہو چکی ہیں ‘ ایسے ہی دیگر مذہبی جماعتوں کو بھی موقع فراہم کیا جائے، اگر ارباب حل و عقد نے طاقت کے زور پر تحریک لبیک کو دبانے کی کوشش کی تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں ‘ کیونکہ ہر مذہبی جماعت کی طرح تحریک لبیک کی جڑیں بھی عوام میںبہت گہری ہیں بلکہ ان کے فالورز کی تعداد دوسری کسی بھی مذہبی جماعت سے زیادہ ہے ‘ اس لیے معاملات کو اس نہج تک نہ لے جایا جائے کہ جسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہو۔
اس معاملے کا آسان حل یہ ہے کہ مذہبی پیشوائوں کو تحریک لبیک کے ساتھ معاملات طے کرنے دیے جائیں، صرف تحریک لبیک ہی کیا جب بھی مذہبی مسائل سامنے آئیں قابل قبول اور متفقہ مذہبی شخصیات کو معاملات حل کرنے کے لیے کہا جائے’یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے اس عمل کے بعد مذہبی جماعتوں کی طرف سے انتشار کی نوبت ہی پیش نہیں آئے گی۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام