2 477

سفارت کاری کے حوالے سے ایک مختلف نقطۂ نظر

روایتی طور پر صرف امن وامان اور سیکورٹی معاملات کیلئے ضروری سمجھی جانے والی سفارتکاری اب جدید دور میں اس سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔ آج یہ بین الاقوامی تعلقات میں تجارت سے لیکر صحت تک تمام تر جہتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ سفارتکاری میں اس کثیرالجہتی کا آغاز جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے ہوا۔ اقوام متحدہ اپنے قیام کے بعد سے ہی کثیر الجہتی سفارتکاری کا مرکز بن گئی اور یہ ممالک میں ترقی، تجارت، انسانی حقوق، صحت، تعلیم اور سائنس پر آپسی تعاون کیلئے مواقع فراہم کرنے لگی۔ ماحولیات سے متعلق معاملات بہرحال ان امور میں شامل نہیں رہے حتیٰ کہ 1972 میں یو این سٹاک ہوم کانفرنس کے بعد یو این انوائرمنٹ پروگرام کی داغ بیل رکھ دی گئی اور یہ پروگرام آج دنیا بھر میں ماحولیات سے متعلق امور پر پالیسی سازی اور گورننس کا منبع ہے۔
آج ماحولیات سے متعلق اقوام عالم کے مختلف قانون ساز اداروں کے بیچ تقریباً پانچ سو معاہدے موجود ہیں۔ عالمی نمائندگی کیساتھ یو این انوائرمنٹ اسمبلی دنیا بھر میں ماحولیات سے متعلقہ پالیسیوں کے حوالے سے پارلیمان کا کام سرانجام دیتی ہے۔ اسی کے ذریعے اقوام متحدہ گاہے گاہے مختلف ممالک سے وابستہ ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے پالیسی سازی کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں میناماٹا کنونشن برائے مرکری کا ایک عالمی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں انسانی جانوں کو مرکری جیسے کیمیائی مادے سے تحفظ فراہم کرنے کا عہد کیا گیا۔ اس کی ایک اور مثال1987میں اوزون لیئر کے تحفظ کے حوالے سے ہونے والا اجلاس ہے جس میں متعلقہ حکومتوں پر سائنسی ماہرین اور نجی شعبے سے وابستہ افراد کیساتھ ملکر اوزون کی لیئر کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اوزون کی یہ لیئر فرج اور اے سی میں موجود مضر گیسوں کے سبب خراب ہوتی ہے البتہ اس کنونشن اور تعاون کا فائدہ یہ ہوا کہ اب اووزن لہر رفتہ رفتہ اپنی بحالی اور درستی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ سٹاک ہوم کانفرنس کو ہوئے پچاس برس بیت گئے اور اب یہ عالمی ماحولیاتی تحریک اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ سائنسی اداروں، سول سوسائٹی، دانشوروں، فلاحی کام کرنے والے رہنماؤں اور ماحولیات اور موسمیات کے مسائل پر آواز اُٹھانے والے سماجی کارکنوں کے باہمی تعاون کیساتھ ایک توانا اور مؤثر پاور ہاؤس کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ انسانیت کی جانب سے باقاعدہ دھاوا بولا جا چکا ہے اور آئندہ کچھ دنوں میں 24 اپریل کو International Day of Multilateralism and Diplomacy for Peace منانے کی تیاری کی جارہی ہے اور اس موقع کی مناسبت سے ماحولیاتی سفارتکاری کی ضرورت اور بھی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ اقوام متحدہ سے اس معاملے پر کچھ مؤثر کردار ادا کرنے کی توقع ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے اس نے پچھتر برس قبل عالمی برادری کو مشترکہ چیلنجز کیلئے ملکر کام کرنے کے قابل کیا تھا۔ اقوام متحدہ انوائرمنٹ اسمبلی کی جانب سے اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ اس بحران کے دور میں بھی ہمیں اپنی کاوشیں جاری رکھنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ کرۂ ارض کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر زور دیا ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریز کا کثیرالجہت سفارتکاری پر ازسرنو زور دینا خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا میں غربت، عدم مساوات، سماجی انتشار، معاشی بحران اور ماحولیات اور موسمی بحران کے باعث انسانیت کی بقا کے حوالے سے مسائل گمبھیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مفاہمت اور ہمہ گیر قسم کی سفارتکاری کی اہمیت کو خاصا اُجاگر کیا گیا ہے۔ لوگوں کی اس حوالے سے رائے جاننے کیلئے دنیا بھر میں تقریباً پندرہ لاکھ لوگوں سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ مسائل کے حل کیلئے ممالک کے آپسی تعاون کی حمایت کرتے ہیں اور اس سب کیلئے ان کی اقوام متحدہ سے کیا توقعات ہیں؟ یہ سروے اقوام متحدہ کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا جس میں دنیا کے مختلف ممالک سے پندرہ لاکھ لوگ شریک تھے۔ حیرت انگیز طور پر ان پندرہ لاکھ لوگوں میں سے 97فیصد نے کثیر الجہتی اور ہمہ گیر سفارتکاری پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ سے وابستہ توقعات کے جواب میں اکثریت کا یہی کہنا تھاکہ وہ اگلے پچیس برسوں میں صحت اور طبی سہولیات کو بہتر بنائے جانے کیلئے پراُمید ہیں جبکہ ماحولیات اور موسمیاتی بحران کو ان پندرہ لاکھ لوگوں کی جانب سے سب سے بڑا اور طویل المدتی چیلنج گردانا گیا۔
اگرچہ ماحولیات سے متعلق مفاہمت اور سفارتکاری مشکلات کا شکار تو رہے گی البتہ اگر عالمی سطح پر شہریوں میں اس حوالے سے شعور اور اپنی ذمہ داری کا احساس جاگ گیا تو کم ازکم اس حوالے سے مکالمے اور گفتگو کے جاری رہنے کے سبب ان مشکل مراحل کے قدر آسان ہو جانے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل