4 362

مواخات مدینہ کا ماڈل

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
ہم میں ہر کوئی کہیں بھی کسی بھی وقت نیکی کا کوئی کام کر سکتا ہے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی نیکی ہے۔ دراصل ہم اس پر غور و فکر کرنے کے عادی نہیں سوچنا شروع کیا جائے تو نیکی کے بے شمار مواقع ہیں کمیونٹی کی سطح پر اپنی مدد آپ اور اپنے ہمسایوں و اہل محلہ اور مسجد میں آنے والے نمازی اپنے سطح پر کسی کام کا بیڑا اُٹھائیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ مسائل اگر زیادہ ہیں تو ان کا حل بھی وہ اپنے طور پر اور اپنی سطح پر تلاش کریں تو کوئی مشکل نہیں۔ سوال ذہن میں آتا ہے کہ بغیر کسی حکومتی یا بیرونی مدد کے معاشرتی مسائل کا حل کیسے ممکن ہے؟ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟
میری دانست میںکمیونٹی سطح پر مقامی مسائل کا حل بغیر کسی حکومتی یا بیرونی مدد کے بالکل ممکن ہے یہ مسجد کی سطح پر مواخات ماڈل سے بالکل ممکن ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں ہجرت کے بعد متعارف کرایا۔نبی کی بستی کے نام سے اسلام آباد میں ڈاکٹر محمد فہیم اور ان کے رضا کاروں کی ٹیم نے ایک کاوش شروع کی ہے ۔ اس ماڈل کا مقصد مساجد کے ذریعے تمام معاشرتی مسائل کا حل خاص کر معاشی مسائل کا حل آس پاس کے شفقت مند لوگوں کی مدد کے ذریعے کرنا ہے ۔ ایسے میں لوگوں کے مسائل کا حل اور معاشرے میں توازن ممکن ہے ۔
اس سکیم کی قابل عمل تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ ہر مسجد کی اپنی کمیٹی ہوتی ہے جسے اس مسجد کا خطیب چلاتا ہے پیش کردہ یا تجویز شدہ ماڈل کے مطابق کے تحت مسجد کی کمیٹی کا پہلا کام یہ ہو گا کہ کمیٹی اپنی کمیونٹی سے رضا کار تلاش کرے اور مواخات کمیٹی تشکیل دے۔ اس کمیٹی اور اس کے رضاکاروں کا پہلا کام یہ ہو گا کہ یہ اپنے آس پاس کے ضرورت مند لوگوں کی نشاندہی کریں اور ڈیٹا اکٹھا کریں تاکہ ان کی مدد ہو سکے ۔مواخات ماڈل کا کام یہ ہو گا کہ وہ ایسے خاندانوں کو ایسے خاندانوں سے جوڑے جو لوگوں کی مدد کو تیار تو ہیں لیکن رابطہ اور معلومات کی کمی کے باعث مدد کرنہیں پاتے ۔ ایسے میں ایم سی کے رضا کار معاشرتی مسائل جیسے بھوک افلاس غربت بیماری یتیم اور لاوارث بچوں مسائل ضل اور مدد وغیرہ کرنے کی کامیاب سعی کر سکتے ہیں اور معاشرے کے پڑھے لکھے صاحب استطاعت لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ہم پر امید ہیں کہ MBM ماڈل ضرور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو رضا کارانہ طور پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں خاص طور پر مسلم ممالک ہمیں یقین ہے کہ مدد کرنے والے لوگ ہمارے معاشرے میں ضرورت مند لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہیں لہٰذا MBM ماڈل کا کامیاب ہونا اور معاشرے میں ان مسائل کا حل یقینی ہے۔
معاشی نقطہ نظر سے اس کا امکان کچھ یوں ہے کہ فی ا لوقت MBM ماڈل کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرے فی الوقت ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ضرورت مندوں تک شفقت مند لوگوں کی مدد پہنچا سکے۔ لہٰذا مساجد کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور لوگوں کی مدد یقینی بنانا چاہئے ۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ صدقات زکواة اور خیرات کی صورت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں لیکن وہ ایک انفرادی کاوش ہے کسی نظم یا ادارے کے تحت نہیں امر واقع یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیاورلڈ بینک اور یو این سمیت سب پریشان ہیں کہ بھاری بھرکم فنڈنگ کے اوروسائل خرچ کرنے کے باوجود غرباء کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں اور ساری محنت رائیگاں جاتی ہے معاشی مسائل کو کس طرح حل کیا جائے اب تک اس طرح کا کوئی ادارہ نہیں بن سکا ہے جو کسی معاشرے میں معاشی مسائل کو حل کر سکے۔
اس سوچ کے مدنظر ہماری کوشش یہی تھی کہ کوئی مسجد سامنے آئے جو ہماری اس تجویز کو قبول کرے اور الحمد للہ مسجد حضرت ابوذر غفاری(فیز 6حیات آباد پشاور) کی کمیٹی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستان کی پہلی ایسی مسجد بن گئی جو اس ماڈل پر عملی طورپر کام کرکے نظیر بن کر دکھائے ۔ ہمیں امید ہے یہ مسجد اس طرح کی پہلی مسجد بن کر دکھائے گی۔ کسی علاقے میں ایک بھی مسجد اس ماڈل اور اس کے ذمے کاموں کو پوری طرح سے سرانجام دے تو آس پاس کی دیگر مساجد کے آئمہ اور مقتدی حضرات بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور انشاء اللہ مواخات کا یہ سلسلہ بہتے پانی کی طرح رواں ہو گا اور ہر مسجد اپنے ارد گرد کے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت پا لے گی۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ 21ویں صدی میں مواخات مدینہ سے متاثر اس ماڈل کو کامیاب کرے آمین۔ (مضمون نگار سکول آف اکنامکس قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''