2 79

مشرقیات

رسول اللہ ۖاپنی امت کو باخبر رکھنے کے لیے صحابہ کرام کو فتنوں سے آگاہ فرماتے تھے۔ ہم اپنا جائزہ لیں کہ اس پرفتن دور میں ہمارا کیا معاملہ ہے؟ کیا ہم فتنوں سے تحفظ اور بچائو کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ موجودہ دور میں سب سے بڑا فتنہ ذرائع ابلاغ پر پروپیگنڈے کی جنگ ہے۔
ایک وقت تھا کہ میڈیا صرف حکومتوں یا اداروں کے کنٹرول میں ہوا کرتا تھا، لیکن اس وقت ذرائع ابلاغ ہر شخص کی دسترس میں ہے، خواہ وہ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ، چھوٹا ہے یا بڑا، امیر ہے یا غریب، عورت ہے یا مرد، وہ شہر میں بیٹھا ہے یا صحرا میں یا پھر پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھا ہوا ہے۔ ہر شخص آسانی کے ساتھ پوری دنیا کی معلومات سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے اور اپنے اردگرد کی خبریں پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ و سوشل میڈیا، یہ تمام ابلاغ کے ذرائع ہیں۔ اگر اس کا مثبت پہلو ہے تو ساتھ میں منفی بھی ہے۔ یعنی تعمیر اور تخریب دونوں پہلو اس میں سموئے ہوئے ہیں۔ جن میں سے تخریب کاری کی دو قسمیں زیادہ خطر ناک ہیں: ایک فحاشی وعریانی کو عام کرنا اور دوسرا جھوٹ، شکوک وشبہات کو پروان چڑھانا۔ یہ دو مرض ہیں، جن کا قرآنِ حکیم میں بھی ذکر ہے اور احادیث میں بھی۔
فحاشی اور عریانی کا سدباب ممکن ہے۔ لیکن دوسرا مرض جس میں شکوک وشبہات کے ذریعے عقائد کا بگاڑ، ذہنوں کی تبدیلی، حقائق کو مسخ کر دینا شامل ہیں، یہ ایسا مرض ہے جس کا علاج بہت مشکل ہے۔ افواہ پھیلانا اور پروپیگنڈہ کرنا کوئی جدید طریقہ نہیں ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ جتنے پیغمبر اس دنیا میں آئے، ان کے پیروکار ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے تھے اور انبیا کے مخالفین بھی استعمال کرتے تھے۔
مشرکین مکہ نے بھی ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا اور مدینہ میں بھی کئی لوگوں نے استعمال کیا۔ جن میں سے تین گروہوں کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے۔
سور النسا میں اللہ فرماتے ہیں:
اے میرے محبوب پیغمبر اور مسلمانو!اگر یہ منافقین باز نہ آئے، دوسرا وہ گروہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور تیسرا گروہ مدینے میں افواہیں اڑانے والے، پروپیگنڈا کرنے والے، اگر یہ تینوں گروہ اپنی شرارتوں، سازشوں یا تخریبی کارروائیوں سے باز نہ آئے، تو ہم آپ کو ان پر مسلط کر دیں گے، پھر یہ بہت کم ہی آپ کے ارد گرد رہیں گے۔ یہ تینوں گروہ ملعون ہیں، جہاں یہ ملیں ان کو پکڑ لیا جائے، ان کا راستہ روکا جائے، ان کی ناکہ بندی کی جائے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں۔
یہی رب کا طریقہ رہا ہے، اللہ کا دستور تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ یہ ہمیشہ انسانیت کی فلاح کے لیے برقرار رہتا ہے۔ (الاحزاب: 60)

مزید پڑھیں:  بارشوں سے ہوئے نقصانات اور حکومتی ذمہ داری