1 477

حکومت اور تحریک لبیک معاہدے کے بعد

تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور دونوں کے درمیان معاملات کو سلجھانے کیلئے ایک معاہدہ ہوا جس میں کئی پردہ نشینوں اور علمائے کرام کا گہرا عمل دخل ہے۔ اس معاہدے کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی کے اسیروں کو رہا کرنا شروع کر دیا اور معمولی مقدمات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم سنگین مقدمات کے حامل اسیروں کے مقدمات قانون کی چھلنی سے ہو کر گزریں گے۔ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کا معاملہ بھی اب قانون کے حوالے ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق سعد رضوی پر کئی مقدمات ہیں اور ان مقدمات کا سامنا انہیں عدالت میں ہی کرنا پڑے گا۔ ٹی ایل پی نے لاہور میں اپنا دھرنا ختم کر دیا اور حکومت نے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کر دی۔ اب یہ قرارداد بھی پارلیمانی تقاضوں کے مطابق زیر کارروائی رہے گی۔ سردست ملک ایک بڑ ے بحران سے بچ گیا۔ یہ بحران اس لحاظ سے قطعی غیرضروری تھا کہ حکومت اور تحریک لبیک کا درد ایک جیسا تھا بلکہ یہ ہر مسلمان کے دل میں دہکنے والی آگ ہے جو مغرب کے فتنہ جو عناصر نے اپنی متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے بھڑکائی ہے۔ ہر مسلمان دکھ، درد، غصے اور انتقام کی اس آگ میں جلتا جا رہا ہے۔ آگ کے شعلوں سے مغرب کے فتنہ پرور عناصر لطف لیتے ہیں۔ اس کا کیا کیجئے کہ مسلمان دنیا میں عمومی طور پر توہین رسالتۖ کی قبیح حرکت پر بھرپور ردعمل ظاہر ہوتا ہے مگر حکمرانوں کی سطح پر اس کا ردعمل دکھائی نہیں دیتا۔ مسلمان دنیا میں صرف دو حکمران ایسے ہیں جو پوری جرأت کیساتھ مغربی دنیا کے فتنہ پرور عناصر کیخلاف دنیا کے ہر فورم پر بول رہے ہیں۔ یہ دو حکمران ترکی کے طیب اُردووان اور پاکستان کے عمران خان ہیں۔ عمران خان نے تو دنیا کے سب سے بڑے فورم پر مغرب کی توجہ توہین رسالت اور اسلاموفوبیا کی جانب دلائی اور اس کا تدارک کرنے کا مطالبہ کیا۔ مغربی دنیا کے اندر بیٹھ کر انہوں نے مغرب کے ان رویوں پر کڑی تنقید کی۔ عمران خان کی اس جرأت اظہار سے مغربی دنیا کی جبینوں کی شکنیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ مغرب کے بزرجمہر اپنی تہذیب کے تضادات واضح اور نمایاں کرنے پر عمران خان سے خوش نہیں۔ اس کا صاف اظہار امریکہ برطانیہ اور فرانس جیسے ملکوں کی حکومتوں کے رویوں سے مل رہا ہے۔ یہی رویہ طیب اُردووان کیساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ او آئی سی کی سطح پر اس حوالے جو سرگرمی نظر آنی چاہئے تھی عنقا ہے۔ عمران خان اس مشن کو ایک عالمی مہم کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں ایک طرف یہ حالات ہیں تو دوسری طرف تحریک لبیک پاکستانی مسلمانوں کے مقبول اور حساس جذبات کو آگے لیکر چل رہی ہے۔ ٹی ایل پی کے بانی مولانا خادم حسین رضوی کی شعلہ نوائی نے موت کے آئینے میں رخِ دوست دکھا کر حاضر وموجود سے بے نیاز اور بیزار نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو حرمتِ رسولۖ کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرنے کو دنیا کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بالاتر شہادت سمجھتے ہیں۔ ان نوجوانوں کیساتھ ملک کے ہر شخص کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ ہر شخص کے کم وبیش یہی جذبات اور فداکاری کا یہی معیار ہے۔ اس طرح پاکستان کی حکومت اور تحریک لبیک ایک راستے کے راہی اور ایک مشن کے علمبردار ہیں۔ اس حقیقت کا اظہار عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں بھی کیا تھا کہ دونوں کا مقصد ایک ہے طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ سو ایک مقصد کی حامل اور ایک راہ کی راہی قوتوں کے درمیان تصادم قطعی بلاجواز تھا۔ اس تصادم میں کسی تیسرے فریق کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس تصادم کا فائدہ اُٹھانے کیلئے جس طرح بھارت اور دوسرے ملکوں کے سوشل میڈیا چہروں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ ”سول وار ان پاکستان” کے ٹویٹر ٹرینڈز چلا کر پاکستان کو خانہ جنگی کا شکار ملک بنا کر پیش کرنے کی منظم کوشش کی گئی جو لوگ ایک معمولی سے تصادم کو خانہ جنگی بناکر پیش کر سکتے ہیں وہ عملی طور پر خانہ جنگی برپا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے سے نہیں چُوک سکتے۔ اسلئے تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان تصادم بڑھنے اور پھیلنے کا فائدہ سوائے پاکستان مخالف عناصر کے کسی اورکو نہ تھا۔ اب اگلے مراحل کو بھی کسی انا کا شکار نہ کرتے ہوئے اس مشترکہ اور عظیم کاز کو اتحاد واتفاق سے آگے بڑھانا چاہئے۔ گمان غالب ہے کہ تحریک لبیک ایک بار پھر اپنی سرگرمیوں اور مہمات کیلئے آزاد ہوگی کیونکہ حکومت نے پہلے مرحلے پر ہی تحریک کو غیرقانونی قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا ہے۔ اب تحریک لبیک کو اپنے جذبے اور قربانی کے اعلیٰ معیار کو حکومت کی اس عالمی مہم کی معاون قوت بنانا چاہئے اور حکومت کو بھی یکسوئی اور یک رنگی اختیار کرتے ہوئے اس مہم کو آگے بڑھاتے رہنا چاہئے۔ مسلمان معاشروں میں عرب سپرنگ طرز کی اُٹھنے والی کوئی بھی لہر ان کے اقتدار کے سنگھاسن کو اُلٹ ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے تو یہ نکتہ انہیں اس خوابیدگی سے بیداری کی راہ پر ڈال سکتا ہے کیونکہ ان حکمرانوں کی سب سے بڑی کمزوری تخت وتاج اور جاہ ومنصب ہے۔

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش