2 80

ماضی کے مزار’ خوشامد کے مینار

بعض اوقات حالات ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں کہ ماضی میں جھانکنا پڑ جاتا ہے اور ماضی کے مزار یوں اُبھر کر سامنے آجاتے ہیں جو عبرت کی داستان سناتے ہیں۔ آج ملک میں اظہار رائے پر قدغن لگانے کے حوالے سے شکایتیں سامنے آرہی ہیں اور طاقت وغرور کے نشے سے سرشار بعض قوتیں جس طرح آپے سے باہر ہو رہی ہیں انہیں ماضی کے حالات کو ضرور ذہن نشین کرنا چاہئے، خاص طور پر پہلے اسی قسم کی سوچ اپنانے والوں کے عبرتناک انجام کو تاریخ کے اوراق پلٹ کر ضرور دیکھ لینا چاہئے۔ دراصل یہ اقتدار کم بخت چیز ہی ایسی ہے کہ جو بھی اس سے متمتع ہو رہا ہو اس کی آنکھوں پر پٹی پڑ جاتی ہے اور نہ جانے کس زعم میں وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جو بعد میں اسے نشان عبرت بنا دیتے ہیں’ جلیل عالی نے کیا خوب کہا ہے کہ
اپنے دئیے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے
آئیے’ ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں’ ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کیا تو اہم سیاسی قیادت کو ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا گیا’ بعض کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر دوسروں کو بھی یہ پیغام دیا کہ اگر وہ کچھ بولیں گے تو ان کا بھی یہی حشر کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست پر ابتداء ہی سے ایسے لوگ چھائے ہوئے تھے جو چڑھتے سورج کے پجاری تھے اس لئے ایوب خان کو ا یسے سیاستدانوں کا قرب حاصل کرنے میں زیادہ تردد کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی جو ان کی ہر بات پہ نام خدا کہنے میں ذرا تامل نہیں کرتے تھے۔ مارشل لاء کے دوران تو خیر اخبارات پر سنسرشپ لاگو تھا مگر خوشامدی سیاستدانوں کیساتھ ساتھ نوکر شاہی کے اندر بھی ایسے ”نابغہ روزگار” ہیرے ان کے ہاتھ لگے جنہوں نے ایوب خان کو قوم کا نجات دہندہ بنا کر ان کی چاپلوسی اور خوشامد پرستی کے ایسے ایسے مظاہر کئے کہ ایوب خان کو بھی یقین ہوگیا کہ واقعی وہ اقتدار نہ سنبھالتے تو پاکستان کا مستقبل تاریک ہو جاتا۔ بعد میں خوشامد پسند سیاستدانوں اور نوکر شاہی کے کل پرزوں نے مل کر مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ تب ملک کے اندر محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر بنیادی جمہوریتوں کا نظام رائج کیا گیا یعنی بلدیاتی نظام کے ذریعے ایوب خان کو بطور صدر منتخب کیا گیا اور مسلم لیگ پر قبضہ جمانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک کنونشن بلایا گیا مگر لیگ کی اصلی قیادت نے اس میں شرکت نہیں کی۔ یوں ایوب خان کی مسلم لیگ کنونشن لیگ کہلائی جبکہ ممتاز محمد خان دولتانہ اور سردار شوکت حیات وغیرہ کی قیادت میں اصلی مسلم لیگ کو کونسل لیگ کا نام دیا گیا۔ اس دوران ملک کے اہم اخبارات پر قابو پانے کیلئے ایک پریس ٹرسٹ قائم کرکے یہ اخبارات سرکاری تحویل میں لے لئے گئے تاہم ڈان’ جنگ اور نوائے وقت جیسے اخبارات کے مالکان نے کسی بھی تحریص’ ترغیب یا طاقت سے دبنے اور حکومتی حلقہ اثر میں آنے سے انکار کردیا خاص طور پر نوائے وقت کی انتظامیہ نے تو اس دور میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا نقیب بن کر عوام کی آواز بننے کو ترجیح دی جس کی بناء پر نہ صرف اس کے سرکاری اشتہارات پر پابندی لگائی گئی بلکہ اس پر بہت سی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔ دوسرے اخبارات بھی میانہ روی سے اپنا کردار ادا کرتے رہے اس کے باوجود یہ اخبارات حکومت کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتے رہے۔ آج مگر جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو ایوبی حکومت ماضی کے ایسے مزار کی صورت نظر آتی ہے جس پر برصغیر کی ایک ملکہ نورجہاں نے صدیوں پہلے کہا تھا
برمزار ماغریباں’ نے چراغے نے گلے
نے پر پروانہ سوزد’ نے صدائے بلبلے
آج اس پریس ٹرسٹ کا بھی نام ونشان دکھائی نہیں دیتا جس کے تحت چھپنے والے اخبارات کاسہ لیسی اور چاپلوسی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور ایوب خان کی رطب الستانی میں اوج کمال کو چھو رہے تھے۔ ٹرسٹ کی دیواریں منہدم ہوگئیں اور تمام غلام اخبارات آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے۔ اب ذرا قریب کے ماضی میں جھانکتے ہیں’ چند برس پہلے ایم ایم اے صوبہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار آئی اور مقتدروں نے صوبائی خزانے سے پائپ لائن مخصوص علاقوں کی جانب موڑ کر ان کے منہ کھول دئیے اور صوبائی دارالحکومت کے چالو منصوبوں تک کے فنڈز روک کر انہیں ایک اہم مقتدر کے آبائی علاقے کی جانب منتقل کیا گیا تو روزنامہ مشرق نے پشاور بچاؤ تحریک کا آغاز کرکے پشاور کیساتھ ہونے والی زیادتی کو ایک تحریک کی صورت میں اُجاگر کیا تو صوبائی حکومت نے طیش میں آکر اخبار کے سرکاری اشتہارات بند کردئیے مگر اس نے اس دور کی صوبائی حکومت کو عوام کے اندر بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بھی تو کہا تھا
غم نہیں گر لب اظہار پہ پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اک طرز نوا کہتے ہیں
یہی صورتحال اے این پی کے دور حکومت میں بھی پیدا ہوئی جب ایک بار پھر مشرق کے اشتہارات بند کردئیے گئے مگر مشرق نے جھکنے سے انکار کردیا تھا، آج پھر ایک اخبار اور چینل کیخلاف پابندیاں لگائی گئی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ غصہ اور طیش ذہن پر چھا جائیں تو عقل کی شامت آجاتی ہے جبکہ ٹھنڈے مزاج سے کئے جانے والے فیصلے بہتر نتائج دیتے ہیں۔
لمحے لمحے میں ہے آواز شکست
میری تاریخ ندامت کی ہے

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو